اپنے گزشتہ کالم بے گناہوں کا لہو بہتا رہے گا کب تک، میں جن حالات و خدشات کی نشاندہی کی تھی وہ اب ایسے طوفان کا پیش خیمہ نظر آرہے ہیں جس کا نتیجہ کسی بھی طرح میرے وطن کی سلامتی کیلئے مثبت نہیں ہو سکتا ہے۔ سیاسی، ریاستی و عدالتی صورتحال کی ابتری کیساتھ دشمن قوتوں کی سہولت کاری سے دہشتگردی اور اس کے نتیجے میں قوم کے محافظین، معصوم افراد اور ریاستی و محافظ مراکز و انسٹالیشنز کو نشانہ بنانا روز کا معمول بن چکا ہے، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب حادثات، حملوں اور شہادتوں کی خبریں نہ آتی ہوں۔ اس بربریت اور خونریزی کے واقعات اور پاکستان دشمنی کا سب سے بڑا ہدف بلوچستان و پختونخواہ ہیں۔ کے پی میں تمام تر ریاستی و حکومتی کوششوں کے باوجود ٹی ٹی پی کی دہشتگردانہ کارروائیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں اور ہر روز وطن کے بیٹے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں تو بلوچستان میں بی ایل اے کی جارحانہ و متعصبانہ کارروائیوں نے زور پکڑا ہوا ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ ہفتے نوشکی اور دیگر علاقوں میں دہشتگردی کے واقعات میں بی ایل اے نے نہ صرف لیویز، پولیس اور انسٹالیشنز کو ہدف بنایا بلکہ متعصبانہ نفرت خصوصاً پنجابی محنت کشوں کو نشانہ بنایا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جعفر ایکسپریس کے سانحے میں بھی مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں محبوس کیا گیا، بلوچستان میں یہ متعصبانہ رویہ محض گزشتہ دنوں یا برسوں کا نہیں ریاستی و ماضی کے ارباب اختیار کے ان منفی اقدامات و اعمال کا نتیجہ اور حقوق سے محروم رکھنے کا رد عمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ محض حقوق سے محروم رکھنے اور ریاستی و دیگر صوبوں کی اشرافیہ کے سبب بلوچستان آج ان حالات سے دوچار ہے، سوال یہ بھی ہے کہ بھارتی را، اور افغان ایجنسیز کی سہولت کاری حالیہ معاملہ ہے یا بلوچستان کے معروضی حالا ت اور سرداروں کے طویل عوام دشمن کردار کا شاخسانہ ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک کے حالات پر نظر ڈالیں اور حالیہ باغیانہ صورتحال کا تجزیہ کریں تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اس صوبے کو ان حالات تک پہنچانے میں جہاں سرداری نظام کا ہاتھ ہے وہیں پاکستان کی اشرافیہ بالخصوص اسٹیٹ یعنی مقتدرہ کا کردار عوامی حوالے سے خوش کن نہیں رہا، تاریخ کی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بلوچ سردار کسی بھی طرح پاکستان کا حصہ بننے پر تیار نہیں تھے اور نہ ہی اپنی حکمرانی و مختاری سے دستبرداری کے حق میں نیز عوام کے حقوق تسلیم کرنے پر آمادہ تھے۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے میں قاضی عیسیٰ، سردار بگٹی و چند سرداروں نے اہم کردار ادا کیا لیکن مری و دیگر قبائل نے اس امر کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اپنی حکمرانی و اختیارات سے دستبردار ہونے پر تیار نہ تھے۔ پاکستان قائد اعظم و قائد ملت کے بعد فوج، بیورو کریسی اور ان کے سیاسی گماشتوں کے ہاتھوں میں ہی رہا اور انہوں نے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ سرداروں کو مراعات و نوازشات سے نوازا جاتا رہا جمہوریت کے نام پر بھی انہیں عوام پر مسلط کیا جاتا رہا جو قبائل حکمرانوں کے قابو میں نہ آئے انہیں جبر و بربریت سے دبانے کے اقدامات کئے گئے۔ ان تمام حالات کے نتیجے میں باغیانہ تحریکوں کا آغاز تو ہو ہی چکا تھا، پاکستان کو روز اول سے تسلیم نہ کرنے والے بھارت نے اس صورتحال کے تناظر میں اپنا دشمنانہ کردار ادا کیا جو آج بھی جاری ہے۔ بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) تک کی اس داستان میں جہاں بھارتی اشرافیہ و راء کا شیطانی ایجنڈا جاری رہا وہیں بلوچ نئی نسل خصوصاً مڈل کلاس کا اضافہ اور دیگر صوبوں مثلاً پنجاب، سندھ ودیگر علاقوں کے افراد سے بلوچ عوام کے حقوق غصب کرنے کا پروپیگنڈہ حالات کو اس حد پر لے آیا ہے کہ سوائے تباہی کے اور کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ بغاوت کی شدت کا اظہارا س سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ صوبے میں بھارتی پرچم کی ویڈیو نظر آئی اور دوسری جانب وزیراعلیٰ کو ہر سکول میں قومی ترانے سے آغاز اور قومی پرچم لہرانے کے احکامات دینے پڑے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر کیا سافٹ ایکشن کی جگہ اسٹرونگ ایکشن کا آرمی چیف کا فارمولا آزمانا کار آمد ہوگا، ہر گز نہیں۔ حالات محض بی ایل اے اور بلوچ یکجہتی کمیونٹی (بی وائی سی) کی حد تک محدود نہیں، ہمارا تجزیہ ہے کہ احساس اور باغیانہ سوچ کا یہ سلسلہ عوام میں بے حد سرایت کر چکا ہے۔ بی ایل اے کا یہ سلسلہ عوام میں بے حد سرائیت کر چکا ہے۔ بی ایل اے کی دہشت گردی کیلئے تو یقیناً اسٹرانگ ایکشن کا جواز بنتا ہے لیکن مسنگ پرسنز کیلئے جدوجہد کرنے والی ماہ رنگ بلوچ اور گمشدگان کے لواحقین کے احتجاج کو بزور طاقت ڈیل کرنا مناسب نہیں، ان کے خدشات و تحفظات دُور کرنے اور اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر بلوچ عوام کے اس احساس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے حقوق غصب کر کے صوبے کے وسائل سے پنجاب، سندھ، وفاق اور دوسرے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ صوبے کی با اثر و معتمد سیاسی اشرافیہ کے برعکس مقتدرہ کے نامزد لوگوں کو نمائندگی بخشی گئی ہے جنہیں نہ عوام کی حمایت حاصل ہے نہ وہ حالات کی بہتری کے اہل ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ موجودہ نظام محض بلوچستان ہی نہیں دیگر صوبوں اور وفاق بلکہ تمام اداروں بشمول عدلیہ اسی روش پر چلایا جا رہا ہے کہ عوام کی رائے آئین، قوانین و جمہوریت کے متضاد ڈنڈے کے زور پر سب کیا جائے۔ آئین پارلیمان، عدالتیں اور ادارے بلکہ ابلاغ بھی صرف اور صرف مقتدرہ کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ عوامی رہنما اور نمائندگان محصور ہیں یا خاموش ہیں۔ کٹھ پتلیوں سے حکومت چلوائی جا رہی ہے اور انسانی حقوق کی پامالی ہر شعبہ زندگی میں نظر آرہی ہے۔ عوام کی پامالی ہر شعبۂ زندگی میں نظر آرہی ہے۔ عوام میں مایوسی حد سے بڑھ چکی ہے اور بقول شاعر اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے، بے حس بنا چکی ہے مری زندگی مجھے، اسی لیے تو ہمارا خدشہ ہے کہ وطن عزیز کے حالات طوفان کا پیش خیمہ بن چکے ہیں۔ طوفان کو روکنے کا واحد حل کہ نظام کو گرا کر حقداروں کو ان کا حق اور عوام کو سکون و زندگی میں امن دیا جائے یہی وطن کی سالمیت کا واحد راستہ ہے۔
٭٭٭