پھر وہی دو عیدیں!!!

0
38
شمیم سیّد
شمیم سیّد

خدا خدا کر کے پچھلے دو سالوں سے تو ایک ہی روز رمضان شروع ہوئے اور ایک ہی روز عید منائی گئی، لیکن اس بار پھر سے ہماری کمیونٹی دو حصوں میں بٹ گئی جس کی سب سے بڑی وجہ ہماری مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم اسلامک سوسائٹی آف گریٹر ہیوسٹن ہے، میری تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ لوگ رویئت ہلال کمیٹی کو آخری وقت میں بٹھا دیتے ہیں چاند دیکھنے کیلئے لیکن یہ اعلان نہیں کرتے کہ چاند کہاں نظر آیا ہے ہمیشہ سے یہ لوگ سعودی عرب کے حساب سے چلتے ہیں وہاں چاند نظر آئے یا نہ آئے وہ جب اعلان کر دیتے ہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ کوئی اس کیخلاف بات کرے۔ آپ صاف صاف بتا دیں کیونکہ ہمارے ہیوسٹن میں سب سے زیادہ لوگ آپ کو ہی ترجیح دیتے ہیں، آپ یا تو کلیندر سے چلیں یا روئیت سے یہ آپ کو طے کرنا ہوگا کیونکہ مسلمانوں کی بڑی تعداد آپ لوگوں کو فالو کرتی ہے اس دفعہ بھی ہمارے نئے صدر نے اعلان کر دیا کہ عید اتوار کو ہوگی کیونکہ سعودی عرب نے اعلان کر دیا تھا لیکن انہوں نے یہ تکلف گوارا نہیں کیاکہ چاند کہاں نظر آیا ،پورے امریکہ سے کوئی شہادت نہیں ملی، سائوتھ افریقہ اور چلی سے کوئی شہادت نہیں ملی اس لیے روئیت حلال نارتھ امریکہ کے چیئرمین مفتی قمر الحسن قادری جن کے بارے میں لوگوں کو یہی شکایت رہتی ہے کہ وہ نہیں مانتے وہ اپنے فقہ اور شرعیت کے معاملے میں نہیں سنتے اور ان کا مؤقف ہمیشہ ایک ہی رہا ہے کہ چاند کی روئیت کی شہادت کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہے اور اس بار بھی کوئی شہادت کہیں سے موصول نہیں ہوئی اس لیے انہوں نے پورے 30 روزے رکھوائے، لیکن اس بار منہاج القرآن کی ہیوسٹن میں 3 مسجدوں میں نماز عید الفطر اتوار کو منائی گئی انہوں نے کس شہادت کی بنیاد پر یہ اعلان کیا جبکہ وہ بھی ہمیشہ چاند کی روئیت پر یقین رکھتے تھے۔ اہل تشیع نے بھی اتوار اور پیر کو عید منائی اس میں کوئی شک نہیں کہ 80 فیصد لوگوں نے اتوار کو عید منائی اور بیس فیصد نے پیر کو عید منائی، اللہ تعالیٰ معاف فرمائے جن کے روزے پورے نہیں ہوئے اور جنہوں نے عید کے روز روزہ رکھا ان کیلئے ہمارے مفتیان کا کیا فتویٰ ہے۔ 29 والے ایک روزہ رکھیں یا تیس والے فدیہ ادا کریں، دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی تک چاند پر ہی متفق نہیں ہوئے چاند تو ایک ہی ہے۔ جہاں بھی نظر آجائے اور اگر ہماری سب سے مقدس جگہ نظر آجاتا ہے تو پھر کیا قباحت ہے مسئلہ یہی ہے کہ سعودی حکومت کے فیصلوں کو ہماری اہلسنت والجماعت معتبر نہیں مانتی ہے اس لیے یہ تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے میری گذارش اور درخواست آئی ایس جی ایچ کے عہدیداروں اور ان کی کونسل سے یہی ہے کہ وہ کمیونٹی کو اس انتشار سے نکالیں اور یہ فیصلہ کر دیں کہ وہ سعودی عرب کیساتھ عید اور بقر عید منائینگے تاکہ چاند کا مسئلہ ہی نہ رہے جس کی مرضٰ ہو اس کیساتھ ہو جائے جس کی مرضی ہہو چاند دیکھ کر کرے۔ حدیث تو یہی کہتی ہے کہ چاند دیکھ کر شروع کرو اور چاند دیکھ کر ختم کرو لیکن ہم لوگ تو سائنس کی مدد لیتے ہیں اب فاصلے اتنے بڑھ گئے ہیں ان پر عمل کرنا مشکل ہو گیاہے ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ چاند کی پیدائش تو سائنس سے ہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ چاند تو ہر کوئی اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا اس لیے اس کی شہادت پر یقین کرنا پڑتا ہے جب چاند نظر آجاتا ہے تو پھر کوئی جھگڑا نہیں ہوتا جیسا رمضان کا چاند سب نے دیکھا اس لیے کوئی بھی اس کیخلاف نہیں گیا۔ جب چاند نظر نہ آئے تو پھر سائنس کی مدد لینی پڑتی ہے اور اس کے ماہرین بتا دیتے ہیں کہ چاند کی پیدائش ہوگئی ہے اور اتنے گھنٹوں بعد چاند دیکھا جا سکتا ہے اس پر ہی اتفاق کر لیں۔ لوگوں کو دو حصوں میں نہ بانٹیں کیونکہ ہماری نااتفاقی کی وجہ سے ہم پوری دنیا میں مار کھا رہے ہیںا گر آج ہم ایک ہوتے تو کسی کی مجال ہے جو مسلمانوں کو اس طرح ذلیل و رسواء کرے اب بھی وقت ہے اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں ایک فیصلہ کریں چاند کی روئیت یا پھر کلینڈر یا سعودی عرب کا چاند جو بھی فیصلہ کرینگے لوگ آپ کیساتھ ہیں لیکن لوگوں کو تسلی نہ دیں کہ ہم چاند دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان میںا یک ہی دن عید ہو رہی تھی پیر کے روز لیکن چاند کا اعلان ہو گیا کہ سعودی عرب نے اعلان کردیا کہ اتوار کے روز عید ہوگی جبکہ وہاں بھی چاند کی ولادت نہیں ہوئی تھی۔ اچانک اعلان ہو گیا اور وہاں تو کوئی حکومت کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا وہاں کا قانون ہی اتنا سخت ہے۔ بس اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ ہماری نسلوں میں ایک دوسرے کی محبت اور احترام پیدا کرے۔ جب ہم نماز گھڑی دیکھ کر ادا کرتے ہیں اور دوسرے کام بھی گھڑی دیکھ کر کرتے ہیں وہ بھی تو سائنس کی ایجاد ہے تو پھر ہم چاند کیلئے سائنسی ایجاد پر یقین کیوں نہیں کرتے۔ حج کرنے جہاز پر جاتے ہیں اونٹوں پر کیوں نہیں جاتے وقت کیساتھ ساتھ اپنے طور طریقے تبدیل کرنے پڑتے ہیں ہر وہ کام اس طرح نہیں کیا جا سکتا جو اس زمانے میں ہوتا تھا صرف فرائض ہیں جن کو ہم تبدیل نہیں کر سکتے ہم اس چیز کو بدعت قرار دیتے ہیں جو اس زمانے میں ہوئی اور اب نہیں ہوتی اجتہاد بہت ضروری ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here