گناہوں سے آلودہ معاشرہ !!!

0
32
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

گناہوں سے آلودہ معاشرہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارا آج کا معاشرہ مختلف قسم کی روحانی و اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہو کر مفاسد کے بحربے پایاں میں غوطہ زن ہے۔ مادی زندگی کے اسباب و وسائل میں جتنی ترقی ہے اتنی ہی شرح سے معاشرہ اخلاقیات میں زوال پذیر ہو چکا ہے بلکہ مرورِ زمان کے ساتھ ساتھ زندگی مزید مسموم تر اور درد ناک ترین ہوتی جا رہی ہے جن لوگوں نے تکالیف سے بچنے کے لئے مسلسل کوششیں کی ہیں وہ کثافت ونجاست کی آغوش میں پڑے اور اندرونی اضطرابات و باطنی رنج و غم کو بھلانے کے لئے برائیوں کے دلدل میں جا گرے۔ اس قسم کے معاشرہ کی زندگی میں آفتاب سعادت کی ضو فشانی کہاں سے آئے ؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ جیسے معاشرہ کے افراد نے خود کو قید و بند اور ہر شرط سے آزاد کر کے انحطاط کے میدان میں آ گے بڑھنے کی بازی لگا رکھی ہو ۔اور اسی دوڑ میں گرتے پڑتے وادی & عدم میں گم ہو رہے ہوں۔اگر آپ غور سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ترقی کے روز افزون وسائل سے بر عکس استفادہ کیا جا رہا ہے ۔ مختصر یہ کہ مادی اور دل لبھانے والی چیزیں امید و آرزو کا محور بن گئی ہیں ۔ پلیدی و ناپاکی کا معاشرہ کے اوپر ایسا منحوس سایہ وحشتناک گھٹاوں کے طریقہ سے چھا گیا ہے کہ جانے کا نام نہیں لے رہا۔ مشہور فرانسیسی مفکر ڈاکٹر کا رل کہتا ہے : ہم کو ایک ایسی دنیا کی شدید ضرورت ہے جس میں ہر شخص اپنے لئے اندگی میں ایک مناسب مقام تلاش کر سکے جس میں مادیت و معنویت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا کہ ہم یہ معلوم کر سکیں کہ زندگی کس طرح بسر کریں ۔ کیونکہ یہ بات تو ہم سب ہی جان چکے ہیں کہ زندگی کی گلیوں میں قطب نما اور راہبر کے بغیر چلنا بہت ہی خطر ناک ہے اور اسی بات پر سب سے زیادہ تعجب ہے کہ اس کے باوجود یہ خطرات ہم کو معقول زندگی کے وسائل و اسباب تلاش کرنے پر کیوں نہیں آمادہ کرتے ؟ذرائع آمدورفت میں ہم نیویگیشن سسٹم کا استعمال کر رہے ہیں مگر آخرت کے سفر کے لئے ہم نے کوئی رہنما نہیں رکھا ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ جو لوگ اس حقیقت کی طرف متوجہ ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ زیادہ تر لوگ اپنی اپنی من مانی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ لوگ آج کی مادی ٹیکنا لوجی سے حاصل شدہ سہولتوں کے سمندر میں غرق رہتے ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر تمدن جدید سے ترک استفادہ پر تیار نہیں ہیں اور نہ اس کی طرف سے چشم پوشی کے لئے آمادہ ہیں ۔ کاش یہ بے پناہ دولت و سر سام آور ثروت گمراہی و تباہی میں صرف ہونے کی بجائے اس کا کچھ ہی حصہ مکارم اخلاق کی توسیع و بلندی میں خرچ ہوتا ۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ اخلاقی قوانین ہمیشہ ثابت اور ناقابل تغییر رہے ہیں ۔ لیکن نہ جانے کیوں ہمارا معاشرہ ہمیشہ تغیر و تحول اور تبدیلی پذیر رہا ہے ۔ مختلف صورتوں اور گونا گوں رنگوں میں نمایا ںہوتے رہتے ہیں ۔ یہ بات محتاج دلیل نہیں ہے کہ جن لوگوں کی نظروں میں فضیلت افراد کی شخصیت کا معیار نہیں ہے ۔(جاری ہے)
وہ لوگ قہری طور سے اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے اور وہ اپنے ماحول سے متاثر ہو کر جو بھی صورت زندگی میں در پیش ہو اسی پر راضی بر رضا رہتے ہیں ۔ ان کو اس کی کبھی فکر نہیں ہوتی کہ اس کا انجام کتنا وحشتناک ہے ؟ یہیں سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ تمدن نہ کبھی اچھے اخلاق کا موجد ہوا ہے اور نہ ہی کبھی معاشرے کی سعادت و اصلاح کی ضمانت دے سکتا ہے ۔
آج کی زندگی اس بڑی نہر کی طرح ہو گئی ہے جس کا پانی زمین کے نشیبی علاقہ کی طرف رواں دواں ہو ۔ اسی طرح ہماری زندگی بھی تمنائوں کے دل فریب نشیب کی طرف تیزی سے بھاگ رہی ہے اور ہر قسم کی پستی و فساد میں الجھتی جا رہی ہے ۔ یہ صرف اس لئے کہ تمنائوں کو حاصل کر سکے اور اپنی شخصی نفع اندوزی کر سکے ، لوگوں نے اپنے نفوس کے لئے نئی ضرورتوں کا میدان تلاش کر لیا ہے اور بڑی شدت کے ساتھ اس میدان میں اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے دوڑ لگا رہے ہیں ۔ لیکن اسی کے ساتھ کچھ ایسی بھی خواہشات ہیں جن کی تکمیل بہت آسان ہے ، جیسے غیبت تہمت،فریب چاپلوسی،تضحیک و غیرہ حالانکہ یہ چیزیں شراب سے زیادہ نقصان دہ ہیں ۔مجھے میرے ایک استاد اخلاق نے بتایا تھا کہ اگر دودھ کے ڈرم میں ایک قطرہ شراب کا ڈال دیا جائے تو سارا دودھ نجس ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر نیک اعمال میں ایک غیبت کی آمیزش کر دی جائے تو سارے اعمال آلودہ ہو جاتے ہیں۔
معاشرہ کی سب سے بڑی برائی جو آج ہمیں کھائی جا رہی ہے وہ عیب جوئی و غیبت ہے جس کے معنی کی وضاحت کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر عام و خاص اس کے مفہوم کو سمجھتا بھی اور سوئے استفادہ بھی کر رہا ہے۔
غیبت کاسب بڑا مقصان تو یہی ہے کہ غیبت کرنے والے کی معنوی وجودی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے ۔ جو لوگ غیبت کے عادی ہو گئے ہیں انھوں نے اپنی فکری موزونیت و نظم اخلاقی کو کھو دیا ہے ۔ یہ لوگ عیوب اور رازوں کو ظاہر کر کے لوگوں کے دلوں کو زخمی کرتے ہیں ۔غیبت کو قرآن نے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف کہا ہے۔غیبت اور عیب جوئی کی بدترین مثالیں شوشل میڈیا پر اور واٹس ایپ گروپ پر مل جائیں گی۔
غیبت بزرگ ترین محل فضیلت کو ویران کر دیتی ہے۔ مختصر یہ کہ یہ بری عادت روشن افکار کو بدل کر اس کے ذہن کے سامنے فہم و تعقل کے دریچوں کو بند کر دیتی ہے ۔اگر آپ معاشرہ کو گری نظر سے دیکھیں تو اس غیبت نے پیکر اجتماع پر کاری ضرب لگا کر اس کو مجروح کر دیا ہے اور معاشرے کے اندر کینہ و دشمنی اضافہ کر دیا ہے۔ جس قوم کے اندر یہ صفت راسخ ہو گئی ہے اس نے قوم کی عظمت کو خاک میں ملا دیا ہے ۔ اس کی شہرت کو داغدار بنا دیا ہے ۔ اور اس ملت کے اندر ایسا شگاف ڈال دیا ہے جو بھرنے والا نہیں ہے ۔یہی بڑا گناہ جو اکثر لوگوں کو چھوٹا نظر آتا ہے کبھی طلاق کا پیش خیمہ بن جاتا ہے اور کبھی قتل و غارت ذریعہ بن جاتا ہے کبھی گھر برباد ہوتے ہیں اور کبھی قوم اور قبیلے برباد ہوتے ہیں
بڑے افسوس کے ساتھ ہم کو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ آج غیبت کا بازار ہر جگہ گرم ہے ۔ اور اس نے ہر طبقہ کے اندر رخنہ پیدا کر دیا ہے جس طرح گیتی کے حادثات باہم مرتبط ہوتے ہیں اسی طرح اگر لوگوں میں روحانی انحراف پیدا ہو جائے تو وہ ہر طبقہ میں سرایت کر جاتا ہے۔ غیبت کی وسعت دامانی کی وجہ سے لوگوں کے افق افکار پرمایوسی و بد بینی کی روح سایہ فگن ہو چکی ہے ۔ آپس کا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ اس لئے جب تک اچھی صفات و روح یگا نگت کا سایہ معاشرے پر نہ پڑے خلوص کا تحقق نا ممکن ہے ۔ جس معاشرے میں اخلاق پسندیدہ کا وجود نہ ہو وہ با برکت حیات کی نعمتوں سے محروم رہتا ہے ۔
ان چیزوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خود ہمارا فریضہ ہے کہ ایک روحانی جہاد کر کے خلوص نیت کے ساتھ اپنے بلند جذبات کو تقویت پہنچائیں اور سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح و تہذیب کی کوشش کریں تاکہ سر زمین نیک بختی پر قدم جما سکیں اور اپنے معاشرے کی ہر پہلو سے اصلاح کر سکیں۔آئیے آ ج مل کر عہد کریں کہ اپنے معاشرے کو پاکیزہ بنانے کے لئے غیبت اور عیب جوئی کے خلاف علم جہاد بلند کریں گے،اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭ا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here