مردِ دین و دانش، ڈاکٹر وحید الزمان طارق!!!

0
214
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

بریگیڈیئر پروفیسر ڈاکٹر وحید الزماں طارق نابغ روزگار اور درویشِ صد افتخار ہیں۔ آپ ایک فزیشن (Physian) ہیں لیکن خداداد علمی اور ادبی صلاحیت وبصیرت سے سرفراز اور وجدان و عرفان کے غماز ہیں۔ آپ مردِ دین و دانش ہیں۔ عالمی سطح کے دانشور اور اقبال شناس ہیں۔ اردو ، فارسی اور انگریزی زبان پر آپ کو کامل دسترس حاصل ہے۔ آپ نے فارسی ادبیات میں پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کی ہے۔ ایران میں بھی شعب طب میں خدمات انجام دی ہیں جس سے آپ ایرانی تاریغ، ثقافت، ادب اور معاشرت پر عمیق نظر رکھتے ہیں – آپ کو ایران قدیم و جدید شاعری پر عبور حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا شمار فارسی کے جدید شعرا میں ہوتا ہے۔ آپ اردو اور فارسی میں شعر کہتے ہیں۔علاوہ ازیں آپ نے یورپ سے میڈیکل میں اعلی اسناد حاصل کیں۔ گو آپ کے شعبہ اور شاعری میں بعد المشرقین ہے لیکن فطری ذوق و شوق نے اِن دونوں کو اِس طرح یکجا و یکجان کر دیا ہے کہ باہم شیر و شکر ہو گئے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی تین تازہ کتابیں مجھے بھیجیں ہیں جس کے لیے شکر گذار ہوں۔ کتابوں پر تبصرہ مقصود نہیں صرف بطورِ تذکرہ مذکور ہے کہ یہ کتابیں ایک نایاب تحفہ درویش ہیں جو علم و ادب کا بے بہا خزینہ مثلِ زیرِ زمیں دفینہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اردو شاعری کی کتاب زمزم احوال کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی تھی تو حسبِ حکم چند سطور لکھیں جو شائع شدہ کتاب میں شامل ہیں، یہ اردو شاعری کا مجموعہ اردو ادب میں ایک نادر اضافہ ہے کیونکہ اِس کا اسلوب منفرد اور انداز استادانہ ہے۔ میں نے لکھا تھا۔ ڈاکٹر وحید الزماں طارق کی شاعری میں جوش ملیح آبادی کا شکوہِ زبان اور علامہ اقبال کے افکار کی جھلکیاں نمایاں ہیں دو شعر سنیے اور سر دھنیے!
چہرے پہ ہے حجاب تو خاک آرزو کریں
پردہ اٹھے جو بیچ سے تو گفتگو کریں
خمخانہ خشک، ساقی و پیرِ مغاں اداس
آ سنگسار شیشہ و جام و سبو کریں
ڈاکٹر صاحب کی دوسری کتاب کپتان کا روزنامچہ ہے، یہ کتاب ان کی آپ بیتی ( Autobiography) ہے جو جگ بیتی کی آئینہ دار ہے۔ نہایت دلچسپ داستانِ شباب بھی ہے اور عمرِ رفتہ کا حساب بھی ہے۔اِس میں چند شخصیات کے واقعاتی خاکے، اشعار، اور ذاتی مشاہدات و تجربات ہیں جن سے یہ کتاب گلدست دانش و بینش بن گئی ہے۔ کرنل محمد خان کی کتاب بجنگ آمد کااسلوب اور نیرنگئی افکار ہے۔آپ کی ارسال کردہ تیسری کتاب اہلِ فارس کی فکری و عملی میراث اور علامہ اقبال علم و ادب کا ایک خزینہ ہے۔ میری نظر میں یہ کتاب زندہ و رخشندہ و تابندہ و پایندہ ایک ایسی تاریخی ، تحقیقی ، علمی، ادبی اور تنقیدی دستاویز ہے جس کی تعریف و توصیف و تمجید کے لیے مجھے موزوں الفاظ دستیاب نہیں۔ بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجاست۔ اِس کتاب میں ایران کی مذہبی، سیاسی ، سماجی ، علمی اور ادبی تحریکوں پر بے لاگ تبصرہ ہے۔ یہ تبصرہ غیر جانبدارانہ اور مدبرانہ ہے۔ قبل از اسلام ایرانی مذاہب زرتشت، مانویت، نسطوریت، اور مزدکیت پر مفصل تبصرہ ہے۔ صفوی دورِ حکومت ، قاچاری دور، پہلوی دور اور اسلامی دور کا جائزہ لیا گیا ہے اور اِن ادوار کا ناقدانہ تجزیہ کیا گیا ہے جو مصنف کی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہ کتاب ایرانی ادبیات اور علامہ اقبال کے حوالہ سے لاجواب و نایاب نسخ فکر و نظر ہے۔ یہ کتاب ذخیر حقائق اور دین و دانش کا مہرِ تاباں ہے۔ علم و حکمت کا ماہِ درخشاں ہے۔ اِس کے مطالعہ سے انسان پر کئی اسرار و رموزِ دین و دانش منکشف ہوتے ہیں۔یہ کتاب جاہل کو عالم بنا دیتی ہے۔ بے خبر کو با خبر، نابینا کو بینا اور کم نظر کو دیدہ ور بنا دیتی ہے۔ کتاب کے مندرجہ ذیل ابواب ہیں۔
@ عجم کی فکری اساس
@ ساسانی عہد اور ایران
@آنحضور صلعم اور سلطنتِ فارس
@اسلام کے بعد کا دور
@مغلیہ عہدِ میں ایرانی اثرات
@ایران کا عہدِ قاچاریہ
@پہلوی دور
@علامہ اقبال اور ایران کا اسلامی انقلاب
@علامہ اقبال اور شعرِ فارسی، ایران کے حال و مستقبل کے آئینہ میں
@ ایران میں افکارِ اقبال کا اثر
کتاب کے ابواب اور موضوعات ایران شناسی اور اقبال شناسی کی داستان ہیں ۔
علامہ اقبال نے جرمنی میں اپنی پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی ایران کی مابعداطبیعات ( Metaphysics) پر لکھا تھا۔ علامہ اقبال کے اردو میں چھ ہزار اور فارسی میں نو ہزار اشعار ہیں جس سے علامہ اقبال کی فارسی دانی کا اندازہ ہوتا ہے۔
اِس بات کا ذکر مجھ پر قرض بھی ہے اور یہ میرا فرض بھی ہے ۔ میں ڈاکٹر صاحب کا ممنون ہوں انہوں نے گذشتہ سال میری انگریزی زبان میں علامہ اقبال پرتصنیف The Message of Iqbal جسے اقبال اکیڈمی لاہور نے شائع کیا تھا، اس پر جامع و عمیق تبصرہ ( Book Review) کیا جو ان کی اقبال شناسی کا آئینہ دار ہے۔ان کی فارسی شاعری پر اقبالیات کے گہرے اثرات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک عرفانی اور وجدانی شخصیت ہیں ۔آخر میں علامہ اقبال کے دو اشعار پیشِ خدمت ہیں جن میں اقبال شناس ڈاکٹر وحید الزماں طارق کا ہی کیف و کیفیت اور سوز و ساز جھلکتا دکھائی دیتا ہے اور اِن اشعار کے وہ نقیب دکھائی دیتے ہیں
غوطہ ہا زد در ضمیرِ زندگی اندیشہ ام
تا بدست آوردہ ام افکارِ پنہانِ شما
حلقہ گردِ من زنید ، اے پیکرانِ آب و گِل
آتشے در سینہ دارم از نیاگانِ شما
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here