نواز اور عمران کی قیدوبند کا موازنہ !!!

0
87
رمضان رانا
رمضان رانا

سابقہ وزیراعظم نوازشریف کا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختیارات کی جنگ کا آغاز جنرل عبدالوحید کاکڑ، جنرل جنجوعہ، جنرل کرامت، جنرل مشرف، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ، جنرل پاشا، جنرل ظہیر السلام، جنرل فیض حمید تک جاری رہا ہے جس کے دوران نوازشریف باربار حکومت سے ہٹائے گئے۔ اقتدار پر قبضہ ہوا۔ نواز حکومتیں برطرف ہوئیں من گھڑت طیارہ سازش کیس میں پہلے سزائے موت پھر جلاوطنی ملی۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل ہوئے۔ بار بار قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ بیماری کے ہاتھوں دوبارہ جلاوطن ہوئے۔ جن کے بارے میں1992سے اب تک جو کچھ سکھا جائے اس میں مثبت اور منفی مواد بہت ہے بشرطیکہ سیاستدان مذکورہ بالا تمام تکلیف اور مشکلات کا ازالہ کرے کہ آخر یہ لوگ کون ہیں جو ملک کو چلنے نہیں دے رہے ہیں۔ جنہوں نے پانچ مرتبہ آئین پاکستان پامال کیا ہے۔ ایک بار ملک توڑا ہے پاکستان کی عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے جوکہ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے نظر آئے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان پر1958سے2008پچاس برس تک فوجی جنرلوں کا قبضہ اور غلبہ رہا ہے جو آج بھی جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی شکل میں طاقتور ہیں جن کے بارے میں گفتگو کرنا جرم ہے۔ جس کے متاثرین بھٹو، بینظیر بھٹو، اکبر بگٹی، ولی خان، غوث بخش بزنجو، خیربخش مری، نوازشریف اور دوسرے سیاستدان ہیں کہ آج ملک میں کوئی بھی سیاستدان نہیں بچا ہے جو ملک کو موجودہ درپیش مسائل سے بچا پائے۔ برعکس عمران خان جن کی1992سے اب تک جنرلوں کی پرورش اور تربیت ہوئی ہے۔ جو جنرلوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا چلا آرہا ہے جن کو سب سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے تاحیات کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا پھر جنرل گل حمید نے انہیں گود لیا۔ جو ملک میں سیاستدانوں کو ختم کرکے رفاہ عامہ کے کام کرنے والوں کو اقتدار میں لانا چاہتے تھے۔ لہٰذا جنرل گل حمید نے عمران خان اور عبدالستار عیدی کو چنا جس میں عیدی نے بھاگ کر لندن میں پناہ لی۔ جنرل مشرف نے عمران خان کو اپنی غیر قانونی اور غیرآئینی حکومت کا حامی بناتے ہوئے اپنے جعلی ریفرنڈم کا چیف پولنگ ایجنٹ نامزد کیا جس کے عوض انہیں 2002میں ایک نشست دی گئی جس کے بعد جنرل پاشا، جنرل ظہیر السلام، جنرل فیض حمید نے سیاسی انتشار سیکھانے شروع کردیئے جس میں جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ پیش پیش تھے۔ جن کی حمایت سے عمران خان نے دھرنوں، الیکشن بائیکاٹوں، لانگ مارچوں، سول نافرمانیوں، قانون شکنیوں، پارلیمنٹوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کی بنا پر عمران خان کو2018میں دھاندلی برپا کرکے اقتدار دلوایا گیا جس کے دوران حکومت پاکستان دیوالیہ ہوگئی، سی پیک روک دیا گیا۔ اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کردیا گیا۔ ملکی قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ ملکی ترقی رک گئی جبکہ چین اور سعودی عرب جیسے ممالک نے مالی امداد بند کردی تو پاکستان کی اشرافیہ کو فکر لاحق ہوا کہ اب آئندہ کیا ہوگا لہٰذا انہوں نے عمران خان کی اندھی حمایت بند کردی جس کے بعد پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ نیا وزیراعظم بنایا جائے تاکہ پاکستان بچ جائے جس کے لئے پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو برطرف کیا گیا جس کا وہ آج تک الزام دے رہا ہے۔ کہ اسے امریکہ کے اشارے پر جنرل باجوہ نے حکومت سے نکالا ہے جبکہ موصوف آئین کے ہاتھوں رسوا ہوا ہے تاہم عمران خان بھی آج توشہ خانے کی چوری کے جرم میں جیل میں ہیں نواز اور عمران کی قیدوبند میں موازنہ کیا جائے تو زمین وآسمان کا فرق ہے نوازشریف کو بار بار جیل بازی جلاوطنی بمعہ خاندان ملی ہے جن کا پورا خاندان اور قیادت جیل میں بند رہی ہے جن کو جیل میں ہر طرح کا ظلم وستم دیکھنا پڑا ہے جبکہ عمران خان کو جیلیں، کمرے بہترسہولتیں دی جارہی ہیں عمران خان آج کا واحد قیدی ہے جن کو تمام تر سہولتیں ملی ہوئی ہیں جو دنیا بھر میں کسی قیدی کو نہیں ملتی ہیں جس میں بچوں کے ساتھ فون کی گفتگو ایئرکنڈیشن کمرے، ورزش کا سامان، ٹی وی، ملاقاتوں کی سہولتیں، قید ہیں جو قید نہیں ہے ایک مذاق ہے مگر پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے اور چلتا رہے گا جب تک استحصالی نظام باقی ہے یہ جعلی پن قائم رہے گا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here