پاکستان کی آئینی تاریخ میں پارلیمنٹ کی بالا دستی ایک ایسا تصور ہے کہ جس کی چھائوں تلے سیاست دانوں نے آئین تخلیق کرتے ہوئے یا پھر اس میں ترامیم کرتے ہوئے، اپنے سینوں میں دبی ہوئی خودمختاری کی خواہش کا اظہار کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ خواہش یہ ہے کہ ہم سیاست دان، عدلیہ سے برتر ہیں اور کوئی ہمیں قانون کے کٹہرے میں لا کر کھڑا نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آئین کی وہ دفعات جو پارلیمنٹ کے طریقِ کار سے متعلق ہیں، ان میں سے دفعہ (2)69 میں لکھ دیا گیا کہ مجلسِ شوری (پارلیمنٹ) کا کوئی افسر یا رکن جسے دستور کی رو سے یا اس کے تحت مجلسِ شوری (پارلیمنٹ) میں ضابطہ کار یا انصرامِ کارروائی کو منضبط کرنے یانظم برقرار رکھنے کے اختیارات دیئے گئے ہوں، ان اختیارات کے استعمال کی نسبت کسی عدالت کے اختیار کے تابع نہیں ہو گا۔ یہ معاملہ صرف آئین کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ جہاں کہیں بھی حکمرانوں کی نیت میں فتور آیا کہ وہ نظامِ انصاف کے سامنے جوابدہ نہ ہوں، انہوں نے ایسے تمام قوانین بناتے ہوئے، خود کو عدالتوں کے دائرہ اختیار سے خارج کر دیا۔ اس کی تازہ ترین مثال فوجی عدالتوں کا قیام اور ان کو عام عدالتوں کی دسترس سے باہر رکھنا تھا۔ اسی طرح ہر وہ کام جو انتظامی امور کے تحت سیاست دان یا بیورو کریٹ سرانجام دیتے ہیں، جیسے لاٹھی چارج، گولی چلانا، پولیس مقابلے میں مارنا وغیرہ، ان اقدامات کے ساتھ ایک لفظ اچھا یقین (Good Faith) لکھ دیا جاتا ہے تاکہ تمام انتظامی اور سیاسی سربراہوں کو قانون کے شکنجے سے آزاد کروایا جا سکے، خواہ وہ لال مسجد کو خون آلود کر دیں یا ماڈل ٹائون میں چودہ لوگوں کی جان لے لیں۔ عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ بھی آئین میں موجود ایسے اختیار کے استعمال کی آخری منزل ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ وہ عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں۔ کچھ عرصہ صدر یا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایسے اقدام کیا کرتے تھے جنہیں عدالت جائز یا ناجائز قرار دیتی تھی۔ لیکن نواز شریف نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے سنہری اصولوں کے تحت آئین سے 58 (2ب) کا وہ صدارتی اختیار کھرچ دیا اور پھر چین سے سو گیا کہ اب قیامت تک کوئی شخص حکومت برطرف کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ جس دن یہ اختیار آئین سے حذف کیا گیا، نواب اکبر بگٹی اس ایوان میں موجود تھے۔ واپس کوئٹہ لوٹے تو رات کو اپنی کھانے کی معمول کی محفل میں زور سے قہقہہ لگا کر کہنے لگے کہ نواز شریف نے آئین سے وہ سیفٹی والو نکال دیا ہے، اب فوج کیلئے براہِ راست آنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ وہی ہوا کہ پہلے صدر غلام اسحاق خان اور صدر فاروق لغاری صدارتی حکم سے حکومتیں برطرف کرتے رہے، اب جنرل پرویز مشرف براہِ راست افواجِ پاکستان کے ساتھ کرسی اقتدار پر قابض ہو گیا۔ عدلیہ کی دسترس سے آزادی اور قانون کی گرفت سے بالاتر ہونے کے دیوانے ان سیاست دانوں کا یہ المیہ ہے کہ یہ ایک ایسی عدلیہ چاہتے ہیں کہ جب وہ برسر اقتدار ہوں تو ان کی غلام ہو لیکن جب یہ خود اس آئین کی زد میں آتے ہیں تو اسی عدلیہ کو پکارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک ایسا انوکھا ملک ہے، جس میں عدلیہ کا سیاسی کردار اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ جب بھی کبھی معاملات عدالت میں گئے تو سیاست دان ہمیشہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک وہ تھے جو غیر آئینی اقدام کو ملک کی بقا کیلئے ضروری سمجھتے تھے اور دوسرے وہ جو اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے۔ اسی لئے عدالت نے جب بھی کبھی کوئی فیصلہ دیا، وہ آج تک مسلسل متنازعہ چلا آیا ہے۔ آج سے ٹھیک 69 سال قبل 17 اپریل 1953 کو جب گورنر جنرل غلام محمد نے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کی اور دستور ساز اسمبلی کو توڑا تو سپیکر مولوی تمیزالدین عدالتِ عالیہ سندھ جا پہنچے۔ عدالت نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا۔ یہ فیصلہ اگرچہ ایک ماتحت عدلیہ کا تھا، لیکن اسے کچھ سیاست دانوں نے عدالتی خودمختاری سے تعبیر کیا۔ اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت سپریم کورٹ جا پہنچی جہاں جسٹس محمد منیر سربراہ تھے۔ انہوں نے عدالتی تاریخ میں پہلی دفعہ نظریہ ضرورت کا استعمال کیا اور گورنر جنرل کے اقدام کو قانونی قرار دیتے ہوئے لکھا ضرورت اس فعل کو قانونی حیثیت دیتی ہے جو عام حالات میں غیر قانونی ہوتا ہے۔ یہ دوسرا عدالتی فیصلہ تھا جس کے سائے آج بھی پاکستان کی تاریخ پر گہرے ہیں۔
تیسرا عدالتی فیصلہ اس وقت آیا جب 7 اکتوبر 1958 کو سکندر مرزا نے آئین منسوخ کر کے مارشل لا نافذ کر دیا۔ اس کے خلاف اسی جسٹس منیر کی سپریم کورٹ کے سامنے مقدمہ درج ہوا جسے دو سو کیس کہا جاتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ فاتح انقلاب جائز ہوتا ہے یعنی جو کوئی بھی اقتدار پر قبضہ کر لے، وہی دراصل حاکم ہے۔ 27 اکتوبر کو فیصلہ آیا اور رات کو طاقت کے اصل مالک جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو ایوانِ صدر سے نکال کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ چوتھی دفعہ عدالت کا دروازہ عاصمہ جیلانی نے کھٹکھٹایا جب جنرل یحیی خان نے 25 مارچ 1969 کو ایوب خان کا عطا کردہ آئین معطل کر کے مارشل لا لگایا۔ اس مقدمے میں فیصلہ چونکہ یحیی خان کی حکومت کے برطرف ہونے کے بعد کیا گیا تھا اس لئے عدالت نے بہادری کے ساتھ لکھا۔ یحیی خان کی حکومت 20 دسمبر 1971 تک عملاً قائم تھی لیکن قانوناً ناجائز تھی۔ پانچویں دفعہ نصرت بھٹو نے عدلیہ کا دروازہ اس وقت کھٹکھٹایا جب 5 جولائی 1977 کو ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کی تھی۔ عدالت نے جسٹس انوار الحق کی سربراہی میں مارشل لا کے نفاذ کو جائز قرار دیا۔ چھٹی دفعہ جب ضیا الحق نے 1988 میں جونیجو کی اسمبلیاں توڑیں تو حاجی سیف اللہ خان عدالت جا پہنچے۔ مقدمے کے دوران ضیا الحق کا طیارہ حادثہ میں انتقال ہو گیا اور عدالت نے ایک دفعہ پھر بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے ضیا الحق کو غاصب (Usurper) قرار دیا، مگر بقول جنرل اسلم بیگ، ان کے کہنے پر اسمبلی بحال نہ کی اور نئے انتخابات کی راہ ہموار کر دی۔
ساتویں دفعہ جب صدر غلام اسحاق نے 6 اگست 1990 کو بینظیر کی حکومت برطرف کی تو اسے جسٹس افضل ظلہ کی سربراہی میں خواجہ طارق رحیم کیس میں عدالت نے جائز قرار دیا۔ آٹھویں دفعہ جب 17 اپریل 1993 کو اسی صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت برطرف کی تو جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں عدالت نے توقع کے برعکس اس حکم کو ناجائز قرار تو دے دیا، مگر طاقت کے مراکز نے عدالت کا حکم نہ مانا اور صدر اور وزیر اعظم دونوں کو حکومت سے چلتا کیا۔ نویں دفعہ 5 نومبر 1998 کو فاروق لغاری نے اپنی ہی پارٹی کی وزیر اعظم بے نظیر کی حکومت کو برطرف کیا تو عدالت نے اس اقدام کو بھی جائز قرار دیا۔ لیکن اب چونکہ صدر کا یہ آئینی اختیار ختم ہو چکا تھا، اس لئے جنرل مشرف صاحب دندنا تاہوا ،12 اکتوبر 1999 کو اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو گیا اور دسویں دفعہ عدالت نے اس کے اس اقدام کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اسے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا۔ دس بار دیئے گئے ان فیصلوں کے علاوہ عدالتوں نے دو وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو حکومت سے محروم بھی کیا ہے۔ ان تمام بارہ فیصلوں کے بارے میں ہر کوئی الگ رائے رکھتا ہے۔ جو اختلاف رکھتا ہے وہ عدلیہ پر مسلسل کیچڑ اچھالتا رہتا ہے۔ بلکہ وہ جو ایک فیصلے سے خوش بھی ہوا تھا، اگلے فیصلوں میں عدالت کے فیصلے کو چمک تو کبھی خوف اور کبھی مصلحت کا نام دیتا رہتا ہے۔
پاکستان کا آئین جن لوگوں نے تحریر کیا ہے، انہوں نے اسے اس قدر مبہم (Vague) رکھا ہے کہ آج 69 سال بعد بھی سیاست دان ایک بار پھر عدالت کے دروازے پر ہیں۔ جب تک تمام سیاست دان مل بیٹھ کر اس آئین کو اس انداز سے تحریر نہیں کرتے کہ آئین اور پارلیمنٹ کے اندر ہی ان کے مسائل کا حل موجود ہو یا پھر کوئی الگ سے ایسا آئینی ادارہ قائم ہو جو ان کے درمیان تصفیہ کرا سکے تو پھر اس وقت تک یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
٭٭٭