مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف چار برس کے بعد وطن واپس آئے اور سازگار ماحول میں ایک بڑے جلسہ عام میں کئی اعلانات کئے۔ مینار پاکستان کے سبزہ زار میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں انتقام کی تمنا نہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ایک بار پھر اقتدار میں آ کر بجلی کے نرخ اور ڈالر کی قدر کم کریں گے۔ ان کے خطاب کا اچھا تاثر یہ تھا کہ مخالفین کے لئے شدت اور تحقیر کی زبان استعمال نہ کی گئی یہ کام ان کے باقی رفقا نے تھوڑا بہت اپنے ذمے لے لیا۔ نواز شریف نے اپنے خطاب میں جہاں سیاسی سرگرمیوں کے دوران اپنے خاندان کو پہنچنے والے دکھوں کا ذکر کیا وہاں ملک کی معاشی تعمیر نو کی بات بھی کی۔انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا بے روزگاری کا خاتمہ نظام انصاف و زراعت میں اصلاحات کے لئے کام کرنا ہو گا مسلم لیگ ن کے قائد نے ملک کو جدید بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لئے برآمدات میں اضافے موٹر ویز بنانے اور ملک کو آئی ٹی پاور بنانے کا عزم ظاہر کیا۔ نواز شریف کی ملک واپسی برسوں سے قانونی تنازع کا موضوع رہی ہے۔2017 میں انہیں دو ریفرنسوں میں جب سزا سنائی گئی تو انہوں نے اس سزا کو سیاسی انتقام قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ ووٹ کو عزت دی جائے۔ کچھ عرصہ جیل اور ہسپتال میں زیر حراست رہنے کے بعد وہ علاج کے لئے بیرون ملک چلے گئے۔ ان کے جانے کو سیاسی ڈیل کہا جاتا رہا ہے۔ نواز شریف کی ملک میں عدم موجودگی اور اس سے قبل انتخابی نااہلی کے دوران مسلم لیگ ن کو کئی طرح کے چیلنج درپیش رہے۔ ان کی سزا کے بعد پارٹی کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی ایک سال تک وزیر اعظم رہے۔ پھر پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد نواز شریف کے بھائی شہباز شریف سولہ ماہ کے لئے ملک کے با اختیار وزیر اعظم رہے۔ مینار پاکستان کی جلسہ گاہ میں خطاب کے دوران نواز شریف نے اپنی حکومت کی کارکردگی کو 2017 تک بیان کیا۔ وہ شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کے دور حکومت کو قبول کرنے میں تامل کا اظہار کرتے رہے نواز شریف کا اصرار ہے کہ ملک کی معاشی تباہی ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد شروع ہوئی۔ وہ اپنی اگلی حکومت کو 2017 کے دور سے جوڑنے کا خواب سجائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ اداروں کی ساکھ تباہ ہونے سے لاحق ہو رہا ہے۔ میاں نواز شریف کا پہلا حوالہ سیاستدان کا ہے اس لئے اسی حوالے کے دائرے میں آنے والے معاملات کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔انہوں نے وطن واپسی پر الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کا بتایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کا کردار متنازع ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنی بنیادی آئینی ذمہ داریوں سے انحراف کرتے ہوئے ناصرف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کرانے سے انکار کیا بلکہ قومی اسمبلی کے انتخابات بھی 90روز کی متعینہ آئینی مدت میں کرانے میں حیل و حجت کا مظاہرہ کیا۔ الیکشن کمیشن کا یہ رویہ اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ اس نے عدالتی فیصلوں کو بھی مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔ دوسرا معاملہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہے۔ خاص طور پر شہباز شریف کی پی ڈی ایم حکومت نے بہت سے معاملات میں پارلیمنٹ کو مذاق بنا کر رکھ دیا ۔ جن معاملات میں آئینی ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے وہ سادہ اکثریت کی قانون سازی سے چلائے گئے۔ اس پارلیمنٹ نے ہارس ٹریڈنگ کو تقویت دی۔ یہ تاثر دیا گیا کہ اگر نواز شریف اقتدار میں نہیں ہوں گے تو پارلیمنٹ سمیت کسی ادارے کی توقیر نہیں کی جائے گی۔ الزام تراشی اور بسا اوقات گالی گلوچ کی زد میں ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی آتی رہی۔ پی ڈی ایم حکومت پر الزام رہا ہے کہ اس نے عدلیہ کو تقسیم کرنے میں کردار ادا کیا۔ یہ وہ ادارے ہیں جو ریاست کے ستون کہلاتے ہیں اور جنہیں میاں نواز شریف مل کر کام کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ ملک کی معاشی حالت بری ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ بجلی مہنگی ہونا ٹیکسوں کی بھر مار سرکاری نظام میں کرپشن کی اونچی سطح کے مضمرات اپنی جگہ لیکن پچھلے 35برس کے دوران اقتدار میں رہنے والے لوگوں نے زراعت صنعت آئی ٹی سیاحت اور خطے میں اچھی ہمسائیگی پر مبنی تعلقات کو بری طرح نظرانداز کیا۔ تارکین وطن کو ملک دشمنوں کی طرح رویے کا مستحق سمجھا گیا۔ ان سے ووٹ کا حق چھینا گیا۔ بدلے میں ہر سال ترسیلات زر میں جو اضافہ ہو رہا تھا وہ سالانہ 27فیصد کم ہونے لگا ہے۔ سابق حکومتوں نے وزارتیں ماہر افراد کے حوالے کرنے کے بجائے اپنے نالائق قرابت داروں اور ساتھیوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹیں۔ خود نواز شریف اور ان کے برادر خورد نے اسحق ڈار پر تکیہ کیا جو غیر ملکی قرضوں کو غیر پیداواری ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجلی مہنگی ہوئی اور اسلام آباد ایئر پورٹ موٹر وے اور ریڈیو سٹیشن گروی رکھنے پڑ رہے ہیں۔ نواز شریف چار سال برطانیہ میں رہے ہیں۔ انہوں نے وہاں کے انفراسٹرکچر کو دیکھا ہے۔ گورننس کا ماڈل بھی مشاہدہ کیا ہے ۔سیاسی نظام کی کامیابی پر بھی غور کیا ہو گا۔ انہیں چاہیے کہ اپنے تجربات کو عملی شکل میں ملک کے فائدے میں ڈھالنے کی سعی کریں۔
٭٭٭