دسمبر اداس اشعار سے مناسبت رکھنے والا مہینہ سمجھا جاتا ہے، پاکستان میں خصوصا گزشتہ کئی برسوں سے اداس شاعری کا ایک سیلاب اُمڈ پڑتا ہے جس میں ماہ دسمبر کو کوس کوس کر اپنے غموں اور دُکھوں کو شاعری الفاظ کا لبادہ اوڑھنے دیا جاتا ہے۔میں تاریخ دان تو نہیں مگر معلوم یونہی ہوتا ہے کہ 16 دسمبر 1971 کو سقوط پاکستان یا سقوط ڈھاکہ بھی اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہو۔مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان کے کتنے خاندانوں کو ایک بار پھر ہجرت کو غم اٹھانا پڑا ہو، عام افراد کی دوستیاں بھی الگ الگ ہوگئی ہوں، سہیلیاں ایک دوسرے سے بچھڑ گئی ہوں یا پھر کتنی ہی خوشحال زندگیاں اس سانحے کے سبب بدحالی کے سانچے میں ڈھل گئی ہوں۔
ممکن ہے کہ ماہ دسمبر میں یہ اداسیاں، دکھ اور غم بیان کرنے کے لیے شاعری یا نثر کا سہارا لیا گیا ہو جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ اداس شاعری نما چیز کا روپ اختیار کرچکی ہو۔خیر دسمبر میں اداس شاعری کا سقوط ڈھاکہ سے کتنا تعلق ہے اس پر آپ کی رائے کا بھی منتظر رہوں گا۔ایک اور بات جو میں نے بطور صحافی ہمیشہ بنگالی بھائیوں میں محسوس کی وہ ان کے لہجوں میں پائی جانے والی ایک گھٹن ہے۔ مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا تھا کہ ان کے دلوں میں پاکستانی لوگوں کیلئے شکایت بھرے جذبات کسی نہ کسی صورت موجود ہیں مگر وہ اس کیفیت کا شکار ہیں کہ تذکرہ کریں تو کیسے؟؟؟؟1971 میں کیا ہوا، کیسے بنگلادیش کا قیام عمل میں آیا یہ تمام باتیں یا تاریخ آج بھی بنگلا دیش میں ہر آنے والی نسل کو رٹائی جاتی ہے۔ میں نے کبھی اس سلسلے میں کسی پاکستانی یا بنگالی مفکر سے بات تو نہ کی مگر گزشتہ روز اچانک میرے سامنے فیس بک پر سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے نوجوان نسل کے خیالات پر مبنی بنائی گئی ایک نیوز رپورٹ آگئی، رپورٹ سن اور دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ بنگادیشی نوجوان کے الفاظ اس وقت ہونے والے واقعات پر یوں ان کی زبانوں پر آرہے تھے جیسے تاریخ انہیں گھول گھول کر پلائی گئی ہو۔
مگر سوال یہ بھی ہے کہ بنگلادیشی نوجوانوں کے ادا کیے جانے والے الفاظ یا الزامات میں کتنی صدقات ہے اور کتنی من گھڑت باتیں ان کے دلوں میں اتاری گئی۔ مثلا بنگالی نوجوان کا یہ کہنا کہ نسل کشی ہوئی، ظلم وستم کے پہاڑ گرے گئے، ان کی معیشت کو قابو میں رکھا گیا، ملازمت میں امتیازی سلوک برتا گیا اور خصوصا پاکستان کو معافی مانگنی چاہیے۔میں یہ سن کر سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ بنگالی نوجوانوں کو سقوط ڈھاکہ تاریخ جس انداز میں بتائی گئی یا بتائی جارہی ہے، ایک روز کسی نہ کسی صورت پاکستان پر اس کا اثر ضرور پڑے گا۔دوسری صورت میں اب وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان اس تاریخ کو واضح طور پر عیاں کرے، بنگالی نوجوانوں کو تاریخ سے جو بتایا جارہا ہے اس میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے، سب کچھ سامنے تاریخ کی صورت میں بیان کیا جائے،اب ضروری ہے کہ اس گھٹن کا خاتمہ ہو، نسل کشی جیسے واقعات کی گھٹن، وسائل اور برابر مواقعوں سے محرومی کی گھٹن۔۔۔۔۔ پاکستان سے معافی کے مطالبے کی گھٹن۔۔۔۔۔یہ گھٹن گزشتہ پچاس برسوں سے چلی آرہی ہے۔
دونوں اطراف کے نوجوانوں کی گفتگو سے کم از کم یہ اندازہ ضرور ہوا کہ ہم یعنی پاکستانیوں سے تاریخ چھپائی جاتی ہے اور انہیں یعنی بنگالی بھائیوں کو تاریخ بتائی جاتی ہے۔
٭٭٭