کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس ملک کے قانون اور اسکی عوام کی جانب سے قانون کی پاسداری پر ہوتا ہے ، ہم 75 سالوں سے پاکستان کی ترقی کا خواب تو دیکھتے ہیں،پاکستان کیلئے جان دینے کی بات تو کرتے ہیں لیکن جب قانون پر عمل کرنے کی بات ہوتی ہے تو سب سے زیادہ قانون کی نافرمانی کرتے ہیں ، سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہم ٹریفک کے قانون کی پاسداری نہیں کرتے ، اگر جلدی میں ہوتے ہیں تو لال بتی پر بھی کھڑا نہیں ہوتے اور پھر سیدھے نکل جاتے ہیں جبکہ تمام گاڑی چلانے والے پڑھے لکھے ہوتے ہیں یہی حال ہمارے ہر قول و فعل کا بھی ہے گزشتہ دنوں جس طرح پاکستان کی سیاست میں نشیب و فراض آئے، عقل حیران رہ جاتی ہے ، برٹش قوم کی ہی مثال لے لیں وہاں کے وزیراعظم بورس جانسن نے صرف ایک چھوٹی سی قانون کی نافرمانی کی کہ کرونا دور میں پارٹی کرنا منع تھا لیکن اس نے چند دوستوں کے ہمراہ ایک پارٹی کی تو اس کی ویڈیو پارلیمنٹ میں چلی گئی جس پر اس کی اپنی پارٹی نے تحریک عدم اعتماد دائر کر دی کہ ہمارا لیڈر اگر قانون کی نافرمانی کرتا ہے تو قوم کو ہم کیسے قانون پر عمل کرنے کو کہہ سکتے ہیں ، اپنی ہی پارٹی کے اہم لیڈروں نے استعفیٰ دیا اور وزیراعظم بورس جانسن استعفیٰ دے کر اپنی فائل اٹھا کر چلتا بنے، جبکہ اپنے ملک پاکستان میں کروڑوں روپے رشوت دے کر اراکین پارلیمنٹ کو خرید کر ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ کھلے عام کر دیا گیا اب جس قوم کی پارلیمنٹ کا حال رشوت و کرپشن پر ہوگا تو آپ اس قوم کو کس طرح بہتری کی جانب لا سکتے ہیں ، ہم سب کا فرض ہے کہ اپنی اپنی جگہ ایک تحریک چلائیں بلا کسی پارٹی یا لیڈر کی حمایت کے کہ پاکستان میں اوپر سے نچلی سطح پر قانون کی بالادستی ہو ، ہم امریکہ یا یورپ میں جاکر تو ہر قسم کے قانون کی پاسداری کرتے ہیں لیکن اپنے ملک پہنچتے ہی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں، قانون بھی ایسا کہ جس پر عمل کر کے ہم اپنی دنیا اور آخرت بھی سنوار سکتے ہیں ، ہمارا علما اکرام یا تمام اہم سیاسی رہنمائوں اور آرمی کے اعلیٰ عہدیداران کو سوچنا ہوگا کہ اگر انھوں نے خود قانون پر عمل نہ کیا تو پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟خدارا پاکستان کو بچانا ہے تو قانون کا احترام کریں ، خاص طور پر ان تمام فوج کے اعلیٰ عہدیداران اور سیاسی رہنمائوں سے گزارش ہے کہ آج نہیں تو کل آپ نے پاکستان چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جاکر رہائش پذیر ہونا ہے وہاں تو آپ قدم قدم پر اُس ملک کے قانون کی پاسداری کریں گے ، کیاآپ یہی کام اپنے ملک میں رہ کر نہیں کرسکتے ؟ اگر ہم ہوائی جہاز کے مسافروں کی ہی مثال لے لیں ، پاکستانی مسافر اپنے ائیرپورٹس پر عملے کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں ، تکبر اور غرور جھلک رہا ہوتا ہے ، انگریزی بول کر ملازمین پر رعب جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں ، کچھ مسافر تو بورڈنگ جلدی لینے کے چکر میں آرام سے ویل چیئر پر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ پاکستانی ائیرلائنز ویل چیئرز مسافروں کے لیے خصوصی ملازم متعین کرتی ہیں جوکہ مسافر کو ائیرپورٹ سے ہوائی جہاز تک ڈراپ کرکے آتا ہے،اب اس عمل سے ان لوگوں کا حق مارا جاتا ہے جوحقیقت میں معذور ہوتے ہیں، ایسے حیلے، بہانے ، دو نمبری اور جعلسازی سے نہ صرف ہمارے کردار پر سوالات اٹھتے ہیں بلکہ ملک کی بھی بدنامی ہوتی ہے۔ پاکستان کو ترقی کیلئے جانوں کی نہیں ڈسپلن، ایمانداری اور تہذیب کی ضرورت ہے ، اور یہ ترقی صرف حکومت اور حکمرانوں سے وابستہ نہیں ہے جب تک عوام کا ایک ایک فرد اپنے طور پر خود کو تبدیل نہیں کرے گا، ترقی کا عمل کبھی شروع نہیں ہوگا، اگر ایک شخص صرف یہ طے کر لے کہ آج کے بعد وہ کبھی کوڑا کرکٹ کھلے عام نہیں پھینکے گا تو یہ بھی بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتا ہے ، کوئی یہ عہد کرے کہ وہ ٹریفک قوانین کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرے گا، رشوت نہ لینا ، اپنے فرائض کو باخوبی احسن انجام دینا ، ڈیوٹی کا وقت پورا کرنا، بڑوں کی عزت کرنا جیسی چھوٹی چھوٹی باتیں دیکھنے اور سمجھنے میں کچھ بھی نہیںلیکن یہ معاشرے کے سدھار اور بہتری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ، بطور مہذب پاکستانی اور شہری اب ہمیں یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کی ترقی ہم سے شروع ہوگی اور ہم ہی اس کا آغاز کرسکتے ہیں ، کوئی غائبی طاقت یا اکیلا وزیراعظم اور 23کروڑ عوام میں صرف 350اراکین ملک کو ترقی یافتہ نہیں بنا سکتے ہیں ۔
٭٭٭