پاکستان میں یہ ٹرینڈ بن چکا ہے کہ چلو ادھر کو جس رخ ہوا چلے۔عرصہ ہوا ہمیں بھی کہا گیا لکھو وہ جو صاحب اقتدار کو پسند آئے لیکن ہر انسان اپنے ضمیر کے ماتحت ہوتا ہے اور وہ اپنے راستے کا چنائو اس کے تحت کرتا ہے وہ نفع نقصان کا نہیں سوچتا، پاکستان میں حبیب جالب اس کی بہترین مثال تھی اور ہے شاعر اور قلمکار معاشرے کا جراح ہوتا ہے، یہ اس کی خوش قسمتی ہوتی ہے کہ وہ ایسے ملک میں پیدا ہو جہاں اس کو سراہا جائے۔ ہمارے ملک میں ایسی کوئی بات نہیں غور کریں جو ملک دو نظریوں کے تحت وجود میں آیا ہو اور مولوی حضرات کا نعرہ ہو”پاکستان کا مطلب کیا۔؟وہاں معاشرے کی ساری خرافات کیونکر جڑیں پکڑ چکی ہیں جہاں ہر معاملے میں جمہوریت سے لے کر مذہب تک میں منافقت ہو تو اللہ کیونکر سنے گا۔جہاں حکمران عوام کی تکلیف کو نظرانداز کرکے سیاست کی عیاشیوں میں مبتلا ہوجائیں اور اپنے مخالفین کو نت نئے طریقوں سے زیر کرنے کی کوشش میں ہو جہاں کا ایک صوبہ ایک نہایت ہی بدکردار، ڈاکو اور اسکے شرابی بدقماش حواریوں کے حوالے کردیا جائے جو فوج کے سربراہوں کو دھمکیاں دے اور بعد میں یہ سربراہ اسے اپنی آنکھوں کا تارہ بنا لیں عوام کو دھمکائیں کہ ان کے خلاف لکھا اور بولا نہ جائے اور خود روز بروز اپنے خرافاتی عزائم کی پریس کانفرنس کرکے تردید کریں اور چاہیں عوام ان کی عزت کریں جو ملکی معیشت اور معاشرہ کو بگاڑ کر رکھ دیں اور عوام سے توقع کریں کہ وہ محب وطن بنے رہیں اور جو بیرونی ممالک کے حکم کے تابع ہوں وہ ہی کریں جس کا حکم ملے اور جی حضوری کی اعلی مثال قائم کریں جو ضمیر سے زیادہ دل کی سنیں اور جو رسول اور اسکے پیغام کو بھول جائیں اور مسلمان کہلوائیں مولویوں کی فوج کی سربراہی کریں تو کبھی قاتلوں اور ڈاکوئوں کو استعمال کریں اپنے مالی مفاد اور اجارہ داری کے لئے چوراہ چلتے کسی کو اٹھا کر غائب کردیں۔کوئی صحافی آواز اٹھائے آئینہ دکھانے اسے گرفتار کروائیں اور معلوم نہ ہو کس نے گرفتار کروایا ہے۔شہر شہر کی عدالتوں میں جاکر معلوم کیا جائے۔تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں ایسے پاکستان کی کیسے ضرورت ہے۔اور ایسی فوجی طاقت کا کیا فائدہ جس کے جنرلز دن رات سیاست میں ڈوبے رہیں عوام کو تاثر دیں کہ ہم ہیں تو تم چین کی نیند سوتے ہو۔ایسے میں عمران نامی شخص ان کو چیلنج کردے تو اس کا بوریہ بستر راتوں رات عدالتیں کھلوا کر باندھ دیا جائے اور آئندہ اقتدار میں آنے کے راستے ڈاکوئوں اور قاتلوں کی حکومت کی دھاندلیوں سے بند کردیئے جائیں تو یہ ہی کہنا پڑتا ہے کہ عمران کا آنا بے حد مشکل ہے لیکن یہ بھی کہتے چلیں کہ اس نے گھر گھر گلی گلی اور بچے بچے کو ان سب لیٹروں کی پہچان کروا دی ہے۔اور ایسا کرکے اس نے نئی تاریخ لکھی ہے پاکستان کا تو کبھی عروج نہیں رہا اور رہا تو صرف ایوب خان کے دس سالہ آمرانہ دور میں ورنہ زوال ہی زوال رہا ہے ہر میدان میں کہ میرٹ کا قتل کرکے ہر ادارے میں نااہلوں کی بھرتی ہوئی ہے۔ اس ملک کی تنزلی کی ذمہ داری عدلیہ اور عدلیہ پر ہے۔ تاریخ میں صرف تین ججیز کا نام آتا ہے جو قانون کی بالاتری کے لئے مشہور ہیں اور مزے کی بات یہ کہ وہ عیسائی، ہندو اور پارسی تھے۔نام بتاتے چلیں، جسٹس کارنیلس جسٹس رانا بھگوان داس اور جسٹس تراب پٹیل اس کے بعد اور اب تک نااہل اور بے ضمیر ججیز کی تعداد بڑھتی ہی گئی ہے اور آج یہ وقت آگیا ہے کہ وہ قانون سے کھلواڑ کرتے رہتے ہیں ایسے ہی بے ضمیر ججوں نے اپنے عہدے اور اپنی عیش وعشرت کی زندگی بجھانے کے لئے ایک سر پھرلے جنونی جنرل کا جو بیرونی طاقت کا آلہ کار تھا کے اشارے پر بھٹو کو پھانسی دلوا دی تھی۔ہر چند کہ ہم بھٹو کے حامی نہ تھے کہ اس نے آتے ہی میرٹ کا قتل عام کرکے غلط لوگوں کو اداروں کی سربراہی دی تھی کہ بحیثیت حکمران اس کا جرم اتنا بڑا نہیں تھا اور ثبوت بھی ٹھوس نہ تھے کہ اسے پھانسی دے دی جاتی اس میں بھی شک نہیں کہ یہ سب کچھ بیرونی اشارے پر کیا گیا تھا اگر جب مارشل لاء لگ سکتا تھا تو اب کیوں نہیں اس لئے کہ اب مارشل لاء لگانے والوں نے عوام میں سے ہی رانا ثناء کی طرح کے لوگ چن لئے ہیں اور انہیں بے لگام کر دیا ہے کہ جو چاہو کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ دوسرے ملکوں میں کوئی وزیر کسی تجارت یا ٹھیکے میں شریک کار نہیں ہوتا خود امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے بزنس سے اپنا نام نکالنا پڑا تھا۔ لیکن پاکستان میں پنجاب کا وزیراعلیٰ حمزہ شریف کئی بزنس میں ملوث ہے عمران خان نے ایسے ہی اس کا نام حمزہ ککڑی نہیں رکھا ہے کہ وہ ککڑیوں(مرغیوں) کی بھی تجارت کرتا ہے اور اب سولرپینل سے پیدا ہونے والی بجلی کا بھی ٹھیکہ اس کے پاس ہے۔
سوال ہے کہ کیا پاکستان کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں کیا ملک اپنے وسائل پر اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکتا ہے جواب ہے ممکن ہے اور اسکی شرائط ہیں۔کہ جنرلز بزنس سے علیحدگی اختیار کریں اپنی حدود میں رہیں سیاست سے توبہ کریں کہ انہوں نے کئی صوبوں میں باغیوں کی فوج تیار کردی ہے۔مثال بلوچستان ہے اورKPKسے آگے سندھ میں زرداری فوج کو آنکھیں دکھاتا رہتا ہے اپنے نااہل بیٹے بلاول کو وزیر خارجہ بنوا کر یہ تاثر دیتا ہے ایک زرداری سب پر بھاری ایسا ممکن ہے اور یہ ہمارے جنرلوں کا کارنامہ ہے کہ کراچی جیسے عظیم الشان ڈھائی کروڑ کی آبادی کے شہر کو حالیہ بارش نے ایک جھیل کی شکل دے دی ہے اور سندھ حکومت چھپی بیٹھی ہے عوام بے حال ہیں کوئی پرسان حال نہیں عید پر جانوروں کی قربانی کے بعد چہار سو تعفن پھیلا ہوا ہے اور بارشوں نے عوام کا گھروں سے نکلنا دو بھر کردیا ہے۔
عوام کو بتاتے چلیں ان سب کو ان ظالموں سے نبٹنے اور اپنا حق لینے کے لئے ان کا گھیرائو کرنا پڑیگا۔گھر میں بیٹھ کر عمران ریاض اور عمران خان کی تقریروں کے مزے لینے کی بجائے ہر ناانصافی کیخلاف کھڑا ہونا پڑے گا ،ایک مثال ہے جو توں کے بھوت باتوں سے نہیں سدھرتے۔ایم کیو ایم جو کراچی کی تباہی میں برابر کی شریک ہے دوسری چور جماعتوں کے ساتھ مل کر، کی بھی چھترول کرنا پڑے گی حال ہی میں ایم کیو ایم کا بابر غوری کراچی گیا تھا اُسے دکھانے کے لئے گرفتار کیا گیا یہ ممکن نہ تھا کہ بغیر فوجی بندوں کے کہ وہ ایم کیو ایم کو عمران خان کے مقابلے میں کھڑا کریں اس سے پہلے ضیاء الحق ایسا کر چکے ہیں دعویٰ ہے کہ ہم سیاست میں نہیں!۔
٭٭٭٭