انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے!!!

0
320
پیر مکرم الحق

کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا لیکن اگر سابق وزیراعظم کے اردگرد لوگ دیکھیں تو آپکو اندازہ ہو جائیگا کہ اگر بہترین حکمران کی کچن کیبنیٹ اس طرح کی ہو تو اسکا تختہ الٹا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔لیکن پھر اچھنبے کی بات یہ بھی ہے کہ ایک آکسفورڈ اور ہاورڈ سے پڑھنا لکھنا انسان جیسے بخوبی اندازہ تھا کہ یہ سارے لوگ ناکارہ اور اخلاقی طور پر دیوالیہ لوگ ہیں پھر انہیں اپنی ٹیم میں شامل کیوں کیا؟سندھی کی پرانی ضرب المثال ہے کہ”چنڈو چنڈے کھے سنوکوہ تے گولے لھبے”ترجمہ بدبخت انسان بدبخت کو سٹوکوس سے بھی تلاش کرلیتا ہے”شیخ رشید، فواد چودھری، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود اور شہباز گل ہی وہ پانچ رتن تھے شہنشاہ اکبر(عمران خان) کے۔جن میں کسے اول تذکر چار میڈ ان پاکستان ہیں اور آخر الذکر”امپورٹڈ ایڈوائزر” ہیں۔یہ تھی بادشاہ سلامت کی کچن کیبنٹ پہلے چار صاحبان کا لوٹا سفر جنرل مشرف، نواز شریف پیپلزپارٹی ق لیگ سے چلتا ہوا تحریک انصاف میں اختتام ہوا ہے اور اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ سفیر آگے کہاں تک جائیگا۔خصوصاً شیخ رشید اور فواد چودھری جب لوٹا کریسی پر تبصرہ فرماتے ہیں تو ہنسی نہیں رونا آتا ہے امر کون لوگ ہو نشئی؟ بعقول خواجہ آصف کے او کوئی شرم پیوندی ہے کوئی حیا روزی سے!! جن کی پرورش لوٹا کریسی کی کچڑ میں ہوئی ہے۔وہ اب لوٹا بننے پر تبصرہ کر رہے ہیں لیکن جب سے شہر اقتدار روٹھ گیا ہے کم ازکم ان دونوں کی سیٹی گم ہوتی ہے یا بند ہوجاتی ہے ان کے معاملے میں دونوں کیفیات بروقت ہوگئی ہیں۔ویسے ایک بات کی تو کپتان کو داد دینی چاہئے اقتدار کے شہر کے پرانے کھلاڑیوں کو حسب کمال مہارت سے کپتان نے بیوقوف بنایا وہ بھی کمال کا فن تھا۔ان مہمان کھلاڑیوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ انکے ساتھ کیا کھلواڑ ہوگیا ہے۔اب یہ لوگ نہ آگے جانے جوگے رہے نہ پیچھے جانے جیسے اب تو یہ خان کے دلدل کے قیدی ہیں اور اب اسی قید میں ہیں انکی سیاسی زندگی گزرے گی۔اب ایک دوسرے کو دیکھ کر کہتے ہونگے۔اساں ہوراں نوں پُھدو بنادے رہے ، اے تے سانوں پُھدو بنا گیا!من گئے کپتان نوں، اوئے شیدے ساڈے نال کی ہوگیا؟ شیخ رشید کے بھانجے بھتیجے نے تو”آخیر” کردی ، مسجد نبویۖ کے برآمدے میں کھڑا ہو کر عمران خان کی فتح کا اعلان کر رہاتھا۔منحوس آدمی سے کوئی پوچھے، کس کے دروازے پر کھڑے ہو کہ کس نحوست کی بات کر رہے ہو،کوئی غیرت شرم نہیں آتی؟؟قارئین معافی چاہتا ہوں ورنہ میں کالم میں سخت بات نہیں کرتا لیکن کیا کریں پتھر کا جواب اینٹ سے نہیں دیا تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا تو بنتا ہے کپتان نے اپنے الفاظ اور لہجے کو اتنا خراب کیا ہے اگر آپ ٹوٹر پر جاکر تحریک کے حمایتوں کے پانچ ٹوئٹر پڑھ لیں چھٹا پڑھنے کو دل نہیں کریگا قتنہ یا ملتی آئیگی اتنی مغلطات گدذی گیا استعمال کی جاتیں ہیں کہ الامان نہ کسی کے رتبے کا لحاظ نہ کی عمر کی خیال ماں، بہنیں بیٹیاں انکی گالیوں کا محور ہے۔نعوذ باللہ یہ ہیں مدینہ کی ریاست کے لوگ جن کے قلم سے کوئی ایک مہذب جملہ نہیں نکلتا۔ماحول اتنا گندہ کر دیاگیا ہے ہم تو یہ سمجھتے رہے تمام راز کے عمران خان ایک اچھے گھرانے کا چشم و چراغ ہے جس نے مغرب کے اعلیٰ ترین اداروں میں علم حاصل کر رکھا ہے اس شخص کے ناک کے نیچے جو طوفان بد تہذیبی رواں دواں ہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔انہیں کون اللہ کا سپاہی یا مدینہ کی ریاست کا محافظ تو کیا خاکروب بھی نہیں کہہ سکتا جس غلاظت کے ڈھیر پر موصوف بیٹھ کر اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کے سپہ سالار شیخ رشید اور فواد چودھری جیسی شخصیات ہوں تو پھر دشمنوں کا کام نہ صرف آسان ہوگیا بلکہ اسی جنگ کی طوالت بھی مارچ ازامکان ہے۔
پاکستان کی سیاست میں گندگی تو پہلے بھی تھی اس کا بھی سہرا شیخ رشید جیسے گھٹیا اور سیاست کی غیر فطری پیداوار کی وجہ سے تھا لیکن اب تو شیطان نے بھی کان پکڑا لئے جب ماہ رمضان کے مقبرک آخری عشرہ میں مسلمانوں کے پاکیزہ اور مقبرک ترین مقامات میں ان شیطان کے حیلوں نے جو طوفان بدتمیزی کی میں کہتا ہوں چلو شہباز شریف کے خلاف اگر صرف چور چور کے نعرے لگتے وہ بھی ناپسندیدہ عمل تھا لیکن انتہا وہ ہوئی جو ایک مسلمان خاتون جو کالی چادر میں لپٹی تھی میں قرآن پاک لبوں پر درود پاک ورد مریم اورنگزیب پر آوازیں کسیں گئیں نہ صرف وہ بلکہ انہیں دھکے دیئے گئے جب شاہ زین بگٹی نے اپنی قبائلی ادائیگیوں اور عین اسلامی روایتوں کے مطابق محترم مریم اورنگزیب کا دفاع کیا تو انکے باتوں کوپکڑ کر کھینچا گیا ہے لعنتی لوگ اپنے کو مسلمان کہتے ہیں۔
روضہ رسولۖ کی مرفد کے احاطہ میں اس طرح کا قابل نفرت عمل کسی بھی معیار سے سیاسی تہذیبی یا انسانی نہیں کہلایا جاسکتا۔ملزمان کو سخت سزائوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔وہاں گرفتار لوگوں کو سی سی ٹی وی کی مدد سے شناخت کیا گیا ہے مروجہ قوانین کے تحت ان پر مقدمات قائم کر دیئے گئے ہیں۔سعودی نظام کو جاننے والے بخوبی جانتے ہیں۔کہ فیصلہ میں دیر نہیں ہوتی وہاں پاکستانی عدالتی نظام نہیں جہاں یہ ناظم جوکیو قتل کا مقدمہ عدالتی نظام نہیں جہاں یہ ناظم جوکیو قتل کا مقدمہ میں تاخیر کرکے دن دھاڑے قتل کو پانی میں بہا دیا جن کے ایما پر قتل ہوا انہیں سب سے پہلے بری کردیا گیا۔اسے پولیس افسر اور جج کو کم ازکم عمر قید کی سزا تو ہونی چاہئے پھر دیکھتے ہیں کون پیسے لیکر قتل کے مقدمہ کو خراب کرتا ہے۔سعودی قوانین کے مطابق چھ سال قید بامشقت10ہزار ریال جرمانہ اور سعودیہ میں تاحیاتت پابندی۔آپ ان مقدس مقامات کے قریب بھی نہیں جاسکتے۔عمران خان مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکہ نے ان کے خلاف سازش کی ہے تو بائیڈن تو آپکا تحتہ گرانے نہیں آیا تھا۔تو اب آپ کو حیرت ہو رہی ہے کہ ہم تو مدینہ گئے رسی نہیں تو اب ہم پر مقدمہ چلانا مضحکہ خیز حرکت ہے۔سازش اوراکسانا بھی جرم کی اعانت کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ان کا نہیں چلے تو پولیس عدالت اور جیلر کا کردار بھی وہی ادا کریں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here