ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا پھر نبوت کا سلسلہ ختم کرنے کے بعد اولیاء اور صوفیاء کی شکل میں ہر دور میں اپنے بندوں کو منتخب کیا جو بالترتیب اپنے رب اور نبی کے پیغام اور تعلیمات کے نور سے منور ہو کر انسانیت کی فلاح وبہبود کا عظیم فریضہ سرانجام دینے لگے۔ان میں بہت سارے اولیاء اور صوفیاء ایسے بھی ہیں جو شعر اور ادب کے ذریعے انسانوں میں محبتوں کے موتی بکھیرتے رہے۔شاعر صوفیاء نے اپنی شاعری کو انسانیت کی اصلاح اور بقا کے لیے اس انداز میں پیش کیا کہ ہر کوئی اس سے مستفید ہو۔ہر کسی نے ان کے کلام سے اپنے ظرف اور ادراک کے مطابق فیض حاصل کیا۔ان صوفی شعرا نے بہت عام فہم اور سلیس انداز میں اپنے افکار پیش کیے۔انہی صوفیا اور افکار کو مزید وسعت عطا کرتے ہوئے آج کے قدیم وجدید شعراء نے بھی اپنے اپنے انداز میں، بالواسطہ یا بلاواسطہ، کم یا زیادہ انسانیت اور انسانی حقوق کی بات ضرور کی ہے۔انہی میں سے ایک نام ڈاکٹر مقصود جعفری کا بھی ہے جن کی شخصیت محبت، رواداری، خلوص، انسان دوستی اور انسانیت کے دکھ درد کا مداوا بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔
مقصود جعفری عہد حاضر کے شاعر، ادیب، کالم نگار ہیں۔وہ گزشتہ23برس سے اُردو ادب کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اردو شاعری کی تصنیف”متاع درد” سے کیا جو نومبر1971ء کو ایس ٹی پرنٹرز راولپنڈی سے شائع ہوئی۔بعدازاں مقصود جعفری نے نہ صرف اردو شاعری بلکہ فارسی، پنجابی، کشمیری اور انگریزی شاعر کی تقریباً ڈیڑھ درجن تصانیف لکھیں اور مزید لکھ بھی رہے ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے نژی نگارشات میں بھی اپنی خدمات پیش کی ہیں جو مذہب، فلسفہ، سیاسیات اور کشمیر کے موضوع پر ہیں۔ان کی مطبوعہ تصانیف کی کل تعداد32ہے اور حال ہی میں ایک نئی کتاب بعنوان”روزن دیوار زنداں” جولائی 2021ء میں شائع ہوئی ہے۔اگر عہد حاضر میں انسانیت اور انسانی حقوق کی بات کی جائے تو ہمیں مقصود جعفری ایک نمائندہ شاعر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتے ہیں۔مقصود جعفری کی شاعری وقتی، عارضی، صحافتی اور احتجاجی نوعیت کی نہیں ہے اور نہ ہی ایسی رومانوی شاعری جو عام طور پر شعراء کو عوام میں مشہور اور ہر دلعزیز بنا دیتی ہے۔ان کی شاعری ایک آفاقی پیغام، پیام محبت اور پیام انسانیت کی حامل ہے۔ایسی شاعری جس میں انسانی تہذیب، انسانی اقدار، انسانی حقوق اور انسانیت کا درد موجود ہو تو وہ شاعری مرتی نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک سایہ دار تناور درخت کی شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔انہوں نے جا بجا اپنی شاعری میں غزل اور نظم کی صورت میں انسانی حقوق کی بہترین عکاسی کی ہے۔
مقام آدمیت سے اگرچہ میں نہیں واقف
مگر آدم کی خاطر آدمی کا ساتھ دیتا ہوں
خدارا اس طرح سے خون انساں مت بہائو تم
میں انساں دوست ہوں میں آشتی کا ساتھ دیتاہوں
آپ انسانیت کے سب سے بڑھ کر قائل ہیں اور مذہب کو نفاق کے بجائے اتفاق اور ہم آہنگی کے ساتھ رواداری کی علامت سمجھتے ہیں۔آپ کا کلام آفاقی اور ہر دور کے موزوں ہے۔انہوں نے مذہب وملت، ملک وقوم، عنگ ونسل اور زبان سے بالاتر ہوکر انسانیت کا عالمگیر اور ہمہ گیروہ فلسفہ پیش کیا جس کی ہمیں آج بہت زیادہ ضرورت ہے۔انسانیت اور انسان دوستی، مذہبی رواداری اور دوسروں کے فکرونظریے اور مذہب کااحترام، دوسرے مسالک اور مکاتب فکر کے لیے برداشت اور وسعت ایک عصری تقاضا ہونے کے باعث مقصود جعفری ہمیں اس بنیادی نکتے کا درس دیتے ہیں۔
رنگ ونسب کے فتنے کچھ اس طرح سے جاگے
خوں ریز دست انساں اب کے کہاں نہیں ہے
مذہب کی نفرتوں نے دنیا بنا دی دوزخ
دنیا میں اب کہیں بھی جائے اماں نہیں ہے
ہر انسان اپنے معاشرے میں ایک مقام رکھتا ہے اور اس معاشرے کی اصلاح اور بہتری میں اپنا کردارادا کر سکتا ہے۔معاشرے کے اندر لوگوں کی تربیت اور ایک دوسرے کے ساتھ اخلاقی بلندی، مذہبی رواداری اور سماجی معاملات کی درستگی کے لیے مخلوق میں بلاتفریق محبت کے پھول نچھاور کرنا مقصود جعفری کا اصل پیغام ہے۔مقصود جعفری انسانیت کی بنیاد پر سب کو ہمدردی اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں۔مقصود جعفری کی حق گوئی، سچائی اور انسانیت کے درس نے تمام مفاد پرست حلقوں کو جو مذہب کو صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، کو مخالف بنا دیا ہے لیکن پھر بھی مقصود جعفری نے ان کی پرواہ نہیں کی اور لوگوں میں محبت کی خوشبو پھیلانے کا فریضہ سرانجام دیتے رہتے اور ان میں رواداری، مذہبی ہم آہنگی، بردباری اور برداشت کے موتی بکھیرتے رہتے ہیں۔
یہ حقیقتوں کی زمیں نہیں یہ طلسم گاہ خیال ہے
میں سفیر خطہ امن ہوں میرا اس پہ جینا محال ہے
نہ دلوں میں زخم وفا رہا نہ لبوں پہ حرف دعا رہا
جو رہا تو مکر و دغا رہا میرا عہد عہد زوال ہے
مقصود جعفری کی شاعری میں انسانیت کا پیغام بھی ہے اور محنت کشوں کے حقوق کا ذکر بھی، غربت میں بھی ہے اور غلامی کے خلاف جہاد کا درس بھی۔آپ کی شاعری ایک انقلابی شاعری ہے جو فطرت کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتی ہے۔ملک کی ترقی اصلاح معاشرہ اور انقلابی قوتوں کی آبیاری مقصود جعفری کا دل پسند مشغلہ ہے لیکن ان کے لیے وہ وطن کے نوجوانوں پر ہی انحصار کرتے ہیں کیونکہ قوم کے نوجوان ہی اس میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔آپ کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ سیاسی غلامی، سماجی بے انصافی، اقتصادی پسماندگی، تمدنی گراوٹ اور باہمی دشمنی دور ہو اور ان کی جگہ مساوات، آزادی، ایکتا اور محبت لے لیں۔آپ ایک نئے منصفانہ سماج کی تعمیر چاہتے ہیں جس میں انسان صحیح معنوں میں انسان بن جائے۔
مجھ سے کرو نہ واعظ دیر وحرم کی باتیں
میں کر رہا ہوں تم سے انساں کے غم کی باتیں
مقصود جعفری انسانوں کو انسانیت سکھاتے ہیں اور ان کو گمراہی سے بچانا چاہتے ہیں۔پسماندہ لوگ ایسے شاعر کو پسند کرتے ہیں جو ان کی پسماندگی کی تعریف کرے لیکن مقصود جعفری اس بات کو ناپسند کرتے ہیں۔انہیں بار بار ایسی باتیں کہنا پڑیں جو عوام کے جذبات، خیالات اور عقائد سے ٹکراتی ہیں لیکن وہ ایسا کرنے سے نہ ڈرتے ہیں اور نہ جھجکتے وہ اپنی باتوں کو میٹھی زبان میں ادا کرتے ہیں پھر جو ایک مرتبہ ان کے پاک وبلند خیالات سمجھ جائے تو ان کی شاعری پر فریفتہ ہوجاتا ہے۔درحقیقت کوئی بھی ذی شعور انسان مقصود جعفری کی نظموں اور غزلوں کو کسی طرح نظر انداز نہیں کرسکتا۔مقصود جعفری کو یقین کامل ہے کہ وہ دن بھی جلد آئے گا جب ان کا پیغام رنگ لائے اور وطن میں آزادی، مساوات، اخوت، اتحاد اور ترقی وخوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔
تجھ کو خبر ہے اے مرے پروردگار کچھ
کیا کیا ستم ہوئے ہیں یہاں آدمی کے ساتھ
کہتے ہیں لوگ شاعر انسانیت مجھے
دو چار روز تم بھی رہو جعفری کے ساتھ
مقصود جعفری کی شاعری محبت، رواداری، خلوص، انسان دوستی اور انسانیت کے دکھ درد کا مداوا بن کر سامنے آتی اور ہر درد مندوغمزدہ کے دکھ اور پریشانی کو محسوس کرکے ان کی مظلومیت اور محرومی کی آواز بن جاتی ہے۔
مسلک کا میرے نام ہے انسان دوستی
انساں ہوں مجھ کو جعفری انساں سے پیار ہے
مقصود جعفری کا ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں جو آپ کے حقیقی”شاعر انسانیت” ہونے کی دلیل ہے۔
میں تو میان خلق ہی رہتا ہوں روز وشب
مانوس کیسے کرتی یہ رہبانیت مجھے
انساں کا درد رکھتا ہوں مقصود جعفری
کہتے ہیں لوگ شاعر انسانیت مجھے
الغرض مقصود جعفری کی شاعری پڑھ کر اور سمجھ کر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ انسانیت کے درمیان زبان، نسل، علاقے اور مذہبی جماعتوں کے قائل نہیں ہیں بلکہ انسانیت کے آفاقی نظریے کے تحت معاشرے کی تشکیل اور فلاح چاہتے ہیں۔آپ کی شاعری مخلوق خدا سے اُنس ومحبت، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے، رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالاتر ہوکر صرف انسانیت کے رشتے کی بات کرتی ہے۔آپ کی شاعری نے دلوں میں انسانیت کی تخم ریزی کی۔یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے اور محبتوں کے رنگ بکھیرنے کے لیے آج مقصود جعفری کے کلام سے استفادہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔مقصود جعفری ایک سدا بہار شاعر اور مفکر ہیں جس کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کبھی کم نہیں ہوگی۔
٭٭٭