نئے ویزا قوانین، امریکا میں آن لائن کلاسز لینے والے لاکھوں غیرملکی طلبا کو وطن جانا ہوگا

0
218

نیویارک(پاکستان نیوز) نئے ویزا قوانین،امریکا میں آن لائن کلاسز لینےوالے لاکھوں غیرملکی طلباکو وطن جانا ہوگا، 8ہزار پاکستانی طلبہ بھی متاثر، بیشتر کا تعلق چین اور بھارت سے ہے، ٹرمپ انتظامیہ پر شدید تنقیدکی جانے لگی۔ تفصیلات کےمطابق امریکا کے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم لاکھوں غیرملکی طلبا کو پہلے سے جاری شدہ ویزے کے رولز میں امیگریشن حکام نے اچانک تبدیلی کر کے امریکا میں موجود لاکھوں غیرملکی طلبا کیلئے انتہائی پریشان کن صورتحال پیدا کر دی ہے، جن امریکی درسگاہوں میں کیمپس اور کلاس روم میں تعلیم کی بجائے تمام کورسز کی تعلیم ”آن لائن“ دی جا رہی ہے ایسی درسگاہوں میں زیرتعلیم غیرملکی طلبہ کو امریکا چھوڑنے اور اپنے وطن واپس جا کر ”آن لائن“ کورسز مکمل کرنا ہونگے۔ امیگریشن حکام کی جانب سے ویزہ رولز کی اس تبدیلی کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف گزشتہ سال امریکا نے 10 لاکھ سے زائد طلبا کوویزےجاری کئے تھے اور کئی لاکھ غیرملکی اسٹوڈنٹ ویزا ہولڈرز گزشتہ برسوں سے امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیرتعلیم ہیں اور اپنی چار سال یا اس سے کم مدت کی ڈگری پروگرام کو مکمل کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں امریکی درسگاہوں پر شدید دباﺅ آ گیا ہے کہ وہ کورونا کے پھیلاﺅ اثرات اور اموت کو نظرانداز کر کے اپنے کیمپس کھول دیں اور کلاس رومز میں تعلیم کا سلسلہ جزوی یا کلی طور پر بحال کریں ورنہ غیرملکی طلبہ کو امریکا چھوڑ کر اپنے وطن جاکر ”آن لائن“ اپنی تعلیم مکمل کرنا ہوگی۔ جاری کردہ تازہ اعلامیہ کے نتیجے میں امریکا کی تعلیمی درسگاہوں کے منتظمین اور غیرملکی اسٹوڈنٹ ویزا ہولڈرز میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کو غیرملکی طلبہ سے اربوں ڈالرز کی فیس اور آمدنی حاصل ہوتی ہے جبکہ غیرملکی طلبہ کو ترقی یافتہ امریکی تعلیمی نظام سے ڈگری اور تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ ان طلبہ کی آمد اور امریکا میں رہائش کے اربوں ڈالرز امریکی معیشت میں شامل ہوتے ہیں،اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس تبدیلی کے خلاف کوئی قانونی اقدام کر کے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا جائے۔ امریکا کی سابق امیگریشن ڈورس میسز نے ویزہ رولز کی اس اچانک تبدیلی پر تنقید کرتے ہوئے اسے امریکی درسگاہوں اور خود امریکا کے معاشی اور قومی مفاد کے خلاف قرار دیتے ہوئے امریکا میں موجود غیرملکی طلبہ کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بڑے منفی اثرات ہوں گے۔ بعض میڈیکل ماہرین نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس تبدیلی کے باعث اگر تعلیمی ادارے کھولے گئے تو پہلے ہی کئی امریکی ریاستوں میں کورونا وائرس کے پھیلاﺅ میں شدت آئی ہوئی ہے اور غیرملکی اور امریکی طلبہ کو درسگاہوں کے کلاس رومز میں آ کر کلاسیں اٹینڈ کرنے سے کورونا کے مزید پھیلنے کا خطرہ بڑھے گا۔ وہ ویزہ رولز کی اس تبدیلی کو کورونا میں اضافہ قرار دے رہے ہیں جبکہ سیاسی ناقدین نے اسے امریکہ میں موجود غیرملکی طلبہ کے خلاف امتیازی سلوک کہا ہے کیونکہ کلاس روم بند کر کے کورسز ”آن لائن“ کرنے میں طلبہ کا کوئی فیصلہ یا قصور نہیں۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے حلقوں نے کہا ہے کہ کورونا پر قابو پانے میں ناکام اورمایوس صدر ٹرمپ اپنی ضدی انا پر ڈٹے ہوئے ہیں اور امریکی درسگاہوں پر کلاس روم کھولنے اور اپنے حامیوں کو مطمئن کرنے کیلئے انہوں نے یہ اقدام کیا ہے۔ ادھر ویزوں کے بارے میں رولز میں تبدیلی کا اطلااق چند ہفتوں بعد امریکی درسگاہوں میں شروع ہونے والے ”فال سمسٹر“ سے ہوگا لیکن تعلیمی اداروں میں موجود اور زیرتعلیم لاکھوں طلبہ بھی اس سال فال سمسٹر میں تعلیم جاری رکھنے کی صورت میں یکساں طور پر متاثر ہوں گے۔ ”فال سمسٹر“ میں داخل شدہ غیرملکی طلبہ اپنے اپنے تعلیمی اداروں کی دستاویزی اور فیس وغیرہ کے ضابطے تقریباً پورے کر چکے ہیں اور بہت سے ممالک میں امریکی سفارتخانے ویزے بھی جاری کر چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 8 ہزار پاکستانی طلبہ اس وقت امریکہ میں اس ویزا پر تعلیم مکمل کر رہے ہیں بہت سے طلبہ کورونا وائرس کے دوران خصوصی فلائٹس کے ذریعے پاکستان چھٹیاں گزارنے اور ساتھ ہی ”آن لائن“ کورس مکمل کرتے رہے ہیں چونکہ اسٹوڈنٹ، ایکسچینج اور دیگر ویزوں پر آنے والے پاکستانی خود کو پاکستانی سفارتخانہ سے رجسٹر نہیں کراتے لہٰذا حتمی اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ نے اسٹوڈنٹ ویزا رولز میں تبدیلی کے بارے وضاحت اور تفصیلات کیلئے امریکی محکمہ خارجہ سے رابطہ کر لیا ہے۔ غیرملکی طلبہ کی امریکہ آمد اور تعلیم سے امریکہ کو سالانہ 40 ارب ڈالر سے زائد آمدنی ہوتی ہے۔ امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی کے ڈپٹی وزیر نے ان اچانک ویزہ رولز کی تبدیلیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ تبدیلیاں ویزہ کے فراڈ، غلط استعمال کو روکنے اور امیگریشن ا±صولوں کو بہتر بنانے کیلئے کیا گیا ہے تا کہ امریکی درسگاہ ”ہائی برڈ“ (HYBIRD) ماڈل اختیار کر کے تعلیم کا دائرہ وسیع کریں اور غیرملکی طلبہ سے واجبات لے کر انہیں آن لائن تعلیم بھی دے سکیں۔ انہوں نے اس الزام سے انکار بھی کیا کہ صدر ٹرمپ اپنی ”انا“ یا اپنی کورونا پالیسی کی ناکامی کے باعث یونیورسٹیوں پر دباﺅ ڈال کر درسگاہیں کھلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here