پاکستان کی ٹیم بنگلہ دیش میں خوار ہوگئی!!!

0
743
حیدر علی
حیدر علی

حسب معمول پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کے دوسرے میچ میں بھی شکست ہوگئی. کھیل کا آغاز تو اچھاتھا اور توقع تھی کہ پاکستان میچ جیت کر پلڑا برابر کردیگا.پاکستان نے بنگلہ دیش کی ٹیم کو 133 رنز پر ڈھیر کردیا تھا اور مذکورہ اسکور بنانا کوئی ہمالہ کی چوٹی سر کرنے کے مدمقابل نہ تھا.پاکستان نے بارہا بھارت کے مقابلے میں دو سو رنز بناچکا ہے اور اُس کے باوجود بھی شکست کھا گیا ہے. لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر پاکستان کی ٹیم میں بابر اعظم اور محمد رضوان شامل ہوتے تو پھر پاکستان کو شکست نہ ہوتی. لیکن جب وہ ٹیم میں ہوتے تھے تو یہ گلہ کیا جاتا تھا کہ شکست اُن کی وجہ کر ہوگئی ہے۔
پاکستان کو بنگلہ دیش کے ساتھ کھیلنے میں کئی دشواریاں یا مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے. مثلابنگلہ دیشی ذاکر کو جاکر اور شفیق کو شوفیق لکھتے ہیں، جسے پڑھ کر پاکستانی کھلاڑیوں کو الرجک سی ہونے لگتی ہے. اور بیٹنگ کرتے وقت اُن کے دماغ میں یہ اشتعال دلاتا رہتا ہے کہ کیوں وہ ذاکر کو جاکر کہتے ہیں.یہ مسئلہ اُنہیں کھیل کے میدان تک پیچھا کرتا رہتا ہے. یہی وجہ ہے کہ آپ نے پاکستانی اور بنگلہ دیشی کھلاڑیوں کے درمیان کھیل کے میدان میں کوئی زیادہ خوش گپیوں یا مسکراہٹ کے تبادلہ کرتے ہوے نہیں دیکھا ہوگا.وجہ یہ ہے کہ زبان کی درستگی کا.میں تو سمجھتا ہوں کہ بنگلہ دیش کی ٹیم کو لکھنئو کے کسی اُردو کے کسی معلم کے حوالے کردینا چاہیے. عوامی لیگ کے ہندو پرست رہنماؤں اور اکٹوسٹوں کا یہ عزم ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین زبان کے مسئلہ کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے، بالفاط دیگر اِس کا کوئی مشترکہ حل نہ نکالا جائے. دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیم بنگلہ دیش کی ٹیم کو کمزور اور لاغر سمجھتی ہے. جبکہ حقیقت اِس کے برعکس ہے. دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان کے دوکھلاڑیوں کا رن آؤٹ ہوجانا اِس کی غمازی کرتا ہے.آخر کیا وجہ تھی کہ صائم ایوب رن بنانے کیلئے دوڑ پڑے تھے. سالوں سال کے تجربے کے بعد اُنہیں یہ بھی ادراک نہ ہوسکا تھا کہ وہ رن آؤٹ ہوسکتے ہیں. لیکن اُنہیں یہ بد گمانی ہوگئی تھی کہ بنگالی اتنے زیادہ چابکدست نہیں ہوتے ہیں. دو عمدہ کھلاڑیوں کا رن آؤٹ ہوجانا اور دو کا ایل بی ڈبلیوہوکر پویلین لوٹ جانا پاکستان کی ٹیم کی افراتفری کی نشاندہی کرتی ہے. دوسرے میچ میں تو پاکستان کی ٹیم پر قیامت ٹوٹ پڑا تھا. پانچ کھلاڑی پندرہ رنز پر آؤٹ ہوگئے تھے . پاکستان اپنے کھیل کی تنزلی میں ورلڈ کا ریکارڈ بریک کرنے والا تھا . بی سی سی آئی کے دفتر میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی، سارے ملازمین ٹیلی ویژن کے گرد جمع ہوگئے تھے، اور شس و پنج میں مبتلا تھے. پاکستان میں بلاول بھٹو نے وزیراعظم شہباز شریف کو کال کرکے حالات سے مطلع کردیا تھا. وہ تو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ فہیم اشرف نے 51 رنز ، 32 گیندوں پر چار چھکے اور چار چوکوں کی برسات سے بنالیا اور پاکستان اپنی کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے المیہ سے بچ گیا۔کرکٹ کے شائقین اور کوچز بنگلہ دیش کے اسٹیڈیم کے کریذ اور پِچ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوے نظر آتے ہیںلیکن کوئی وہاں کے تماشہ بین کی اخلاق سے گری ہوئی ہوٹنگ اور شور غل کے بارے میں گفتگو کرنا نہیں چاہتا. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بنگلہ دیش کی ٹیم اُن ہی صعبتوں سے دوچار ہوتی ہے جس سے پاکستان کی ٹیم بنگلہ دیش میں نبرد آزما ہوئی تھی. شور وغوغا کا یہ عالم تھا کہ پاکستان کے انگلش کوچ کو بنگلہ دیش کے کرکٹ کے منتظمین سے اِس کی شکایت کرنی پڑی تھی ، لیکن اُس کا بھی کوئی فائدہ نظر نہ آیا تھا. بنگلہ دیش نے صرف باہر سے لائے ہوے کھانے پر پابندی عائد کر دی تھی.

دو ٹی ٹوئنٹی میچ جیتنے کے بعد بنگلہ دیش کے شہریوں کے چہرے پر جو مسکراہٹیں بکھرنے لگیں تھیں وہ تیسرے اور آخری میچ میں یک دم غائب ہوگئیں اور اُس کے بجائے اُن کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں. پاکستان کی ٹیم نے صحیح معنوں میں بنگلہ دیش کو اُس کی اوقات یاد دلا دیا. میچ کے آغاز کے ساتھ ہی
پاکستان کے اوپنرز بیٹسمین صائم ایوب اور صاحبزادہ فرحان نے بنگلہ دیش کے بولروں کے گیندوں کی جو پٹائی کی اُس سے اُنہیں چھٹی کے دودھ یاد آگئے. اُن کے کھیل کو دیکھ کر یہ بدگمانی ہونے لگی تھی کہ پہلا دو میچ پاکستان کی ٹیم نے دیدہ و دانستہ طور پر بنگلہ دیش کو خوش کرنے کیلئے کھیلا تھا. فرحان نے جس تیزی سے رنز بنانا شروع کیا تھا اُس سے معلوم ہورہا تھا جیسے وہ ورلڈ ریکارڈ بریک کرنے والے ہیں.
صحیح معنوں میں اُنہوں نے پاکستان کی ٹیم کے کھیل کے معیار کی عکاسی کی تھی.پاکستان کی ٹیم نے سات وکٹوں پر 178 رنز بنائے تھے جبکہ بنگلہ دیش کی ٹیم 104 رنز پر ڈھیر ہوگئی . بنگلہ دیش کے اخباروں نے کھیل کا تجزیہ کرتے ہوے اپنی ٹیم کو انتہائی لعن و طعن کانشانہ بنایا ہے.اخبار نے لکھا ہے کہ محمد سیف الدین کی وجہ کر بنگلہ دیش شرمناک شکست سے بال بال بچ گیا . سیف الدین نے 34 بال پر 35 رنز
بناکر اپنی ٹیم کی ساکھ کو بحال رکھا لیکن اُس بیچارے نے شکست سے گریذ نہ کرسکا. بنگلہ دیش کی ٹیم میں
سیف الدین کے علاوہ نعیم شیخ ایک دوسرے بیٹر تھے جنہوں نے اپنا اسکور دو ہندسوں تک پہنچایا تھا.پاکستان کے بیٹسمینوں نے چھکوں کی بارشیں لگادیں تھیں، اُن کے سامنے فاسٹ سے فاسٹ بولرز بے بس نظر آرہے تھے، جبکہ پاکستانی بولروں نے یکے بعد بولڈ آؤٹ کرکے کھیل کے معیار کو بلند کردیا تھا. سلمان مرزا جنہوں نے اِس سیریز میں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا بولنگ کرنے میں وہ انتہائی کامیاب رہے اور19 رنز پروہ تین وکٹیں لینے میں کامیاب ہوگئے.

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here