اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب…!!!

0
71
ماجد جرال
ماجد جرال

یہ پانامہ کیس کا فیصلہ سنانے کا دن تھا، دیگر ساتھی رپورٹرز کے ساتھ میں بھی فیصلے کے انتظار میں عدالتی احاطے میں فون لیے ادھر ادھر گھوم رہا تھا،، سپریم کورٹ رپورٹنگ کی وجہ سے کچھ وکلا سے جو اس زمانے میں اہم سرکاری وکلا بن چکے تھے ان سے جان پہچان بھی تھی، انہی میں سے ایک وکیل نے مجھے فیصلے کے بارے میں مبہم انداز میں آگاہ کیا۔یہ اگہی اس وقت مجھ سے بھی نہ چھپائی جا سکے جب میرے ایک ساتھی رپورٹر نے مجھ سے پوچھا کہ نواز شریف کو کتنی سزا ہوگی تو میرے منہ سے اچانک نکل گیا سات سال کی سزا ہوگئی۔تین گھنٹے بعد جب فیصلے میں جج نے نواز شریف کو سات سال کی سزا سنائی تو عدالتی احاطے میں باہر آتے ہوئے میں نے اپنے اسی وکیل کی جانب دیکھا تو وہ مسکرا دیا۔میں نے بھی مسکراتے ہوئے جوابا شکریہ ادا کیا اور فیصلے کی تفصیل بتانے کیمرے کا سامنے پہنچ گیا۔یہ پاکستان کے عدالتی تاریخ میں ایک انتہائی کمزور مقدمہ تھا جس میں حکومتی وکلا اور ایف آئی اے کے آفیسر واجد ضیا، نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے سامنے ہر لمحہ بے بس نظر آتے تھے مگر فیصلہ جو آنا تھا وہ سب کو پتہ تھا۔آج اسی طرح کا ایک کیس سائفر کیس کے نام سے جانا چاہتا ہے جس میں پی ٹی آئی کے سربرا عمران خان اور اہم رہنما شاہ محمود قریشی کو سزا سنائی گئی ہے، یقینا یہ مقدمہ بھی پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک انتقامی مقدمے کے طور پر ہی یاد رکھا جائے گا۔افسوس ضرور ہوتا ہے مگر ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے، عمران خان رجیم نے جس طرح پاکستان میں انتقامی سیاست کو فروغ دیا، ذاتی دشمنی تک سیاست کو لے کر گئے، لوگوں کے اندر نفرت کے جو بیج بوئے گئے،اس نے پاکستان میں جمہوری اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔میں سچا ہوں کا اصرار اس قدر بڑھ گیا کہ ایک دوسرے کی بات سننے کا رجحان کم ہو گیا، تمہارا لیڈر چور کا شور اتنا مچا کہ منطق اور سچائی کی آواز دب کر رہ گئی۔آج تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ آج نواز شریف کی جگہ عمران خان اور اور عمران خان کی جگہ نواز شریف ہے،ہاں مگر دونوں کے لاڈ اٹھانے والی اسٹیبلشمنٹ اپنی جگہ یونہی بیٹھ کر سیاست دانوں کی ڈوریاں ہلا رہی ہے۔عمران خان رجیم نے مسلم لیگ نون کو انتخابات سے باہر کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے مگر جوابی کاروائی میں آج پاکستان تحریک انصاف اپنے انتخاب نشان سمیت بہت کچھ کھو بیٹھی ہے۔غرض پاکستان میں جو انتخاب ہونے جا رہا ہے وہ کسی طور پر بھی جمہوری طاقتوں کی مضبوطی کا باعث نہیں بنے گا بلکہ میں اسے اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب ہی کہوں گا جس کے نتائج ابھی سے سب کو واضح نظر آرہے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here