میرے ہاتھوں میں نہیں کوئی ہنر اب کے برس!!!

0
111
اوریا مقبول جان

سب ناکام ہو چکے ہیںسیاستدان، جرنیل، بیورو کریٹ، سماجی کارکن، مصلح، صحافی، دانشور اور واعظینِ منبر و محراب۔ 2022 کا سورج ان کی بد اعمالیوں کا نوحہ پڑھتے ہوئے طلوع ہوا۔ پچھہتر برس زوال کا سفر، جس میں ہر کوئی حصے دار ہے لیکن اس خوفناک ناکامی کا ملبہ دوسرے پر ڈالتا ہے اور اسے اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی۔ اس مملکتِ خداداد پاکستان کی لوٹ مار میں ہر کسی کا برابر کا حصہ ہے۔ سیاستدان برسرِاقتدار تھے تو خاکی افسران اپنی بساط برابر حصہ وصول کرتے تھے، بلکہ ان پر تو نوازشات کی بارش ہوتی تھی۔ پاکستان کی سول سروس میں ان آفیسران کی بے تحاشہ تعداد قائدِ عوام ذوالفقار بھٹو کی خصوصی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اہل ترین وزیر اعلی شہباز شریف نے گھوسٹ سکولوں تک کی نشاندہی کیلئے ان پر ہی بھروسہ کیا اور پھر امنِ عامہ سے لے کر سڑکوں کی تعمیر تک سب انہیں دے دیا۔ جرنیلوں نے جب کبھی عنانِ اقتدار سنبھالی تو ان کے پائوں مضبوط کرنے کیلئے یہی سیاستدان اپنا کاندھا پیش کرتے رہے اور اپنی خدمات کے عوض، وہ اپنی حیثیت، اوقات اور مرتبے کے مطابق ملک میں سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محمد خان جونیجو اور شریف خاندان سے لے کر زرداری خاندان تک کون ہے جس نے فائدہ نہ اٹھایا ہو۔ ان کے محلات، بزنس ایمپائرز، ملکی اور غیر ملکی اثاثے سب فوجی آمروں کے دور میں ہی بڑھے کیونکہ یہ مارشل لائوں کی خوشنما چھتری تلے اطمینان سے عوامی نمائندگی کا خوبصورت سیاسی فریضہ ادا کر رہے تھے۔ بیورو کریٹس کے کیا کہنے، ان کیلئے تو جو بھی حکمران ہوتا، ان کے سروں کا تاج ہوتا۔ اقتدار کے بالا خانے میں ان کی حیثیت ایک ایسی رقاصہ کی سی رہی ہے جو ہر نئے آنے والے کے ذوق کے مطابق بن سنور جاتی ہے اور اسی کی پسند کے گیت گانے لگتی ہے: معشوقِ مابہ شیوہ ہر کس موافق است باما شراب خورد بہ زاہد نماز کرد ترجمہ: میرے معشوق کے اطوار بھی ہر کسی کو موافق آتے ہیں۔ میرے ساتھ بیٹھ کر شراب پی لیتا ہے اور زاہد کے پاس جا کر نماز پڑھ لیتا ہے۔ عدلیہ کے سیاسی کردار پر تو علیحدہ سے کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ جسٹس منیر کے پہلے فیصلے سے لے کر جسٹس ارشاد حسن خان کے آخری فیصلے تک تمام کو ایک کتاب میں اکٹھا کر دیا جائے تو پڑھنے والوں کو خود بخود ایک ترتیب وار فہرست میسر آ جائے گی کہ جب کبھی بھی میرے وطن کی قابض اور غالب اشرافیہ نے اپنے قبضے کے جواز کیلئے عدلیہ کو پکارا انہوں نے فورا لبیک کہا۔ دانشور، صحافی، سماجی کارکن، مصلح اور منبر و محراب کے واعظین اپنی اپنی صلاحیتوں کی داد اسی طرح وصول کرتے رہے، جیسے پرانے وقتوں کے بادشاہ خوش ہوتے تو دامن موتیوں سے بھر دیتے۔ پاکستان کے آغاز ہی سے پلاٹوں اور زمینوں کی الاٹمنٹ کی فہرست اگر نکال لی جائے تو آپ کو اس ملک کے لٹنے کی ایک ترتیب وار کہانی مرتب کرنے میں ذرا دیر بھی نہیں لگے گی۔ پہلی آئین ساز اسمبلی توڑنے والے گورنر جنرل غلام محمد کے دورِ اقتدار میں 1955 میں پہلا کوٹری بیراج مکمل ہوا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان جو نہ صرف آرمی چیف تھے، بلکہ اس سیاسی حکومت میں وزیر دفاع اور وزیر داخلہ بھی تھے، انہیں 500 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی۔ الاٹمنٹ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں بیوروکریٹ اور جج حضرات شامل ہیں۔ جب ایوب خان کے دور میں گدو بیراج مکمل ہوا، تو نوازشات کا رخ انہی مہربانوں کی طرف گھوم گیا۔ جسٹس منیر جس نے ایوب کے مارشل لا کو نظریہ ضرورت کی چھتری فراہم کی تھی اسے 150 ایکڑ الاٹ ہوئے اور دیگر جج حضرات میں جسٹس ایس اے رحمن کو 150 ایکڑ ، جسٹس انعام اللہ خان 240 ایکڑ، جسٹس محمد دائود 240 ایکڑ اور جسٹس فیض اللہ خان 240 ایکڑ۔ سیاستدانوں میں ملک خدا بخش بچہ 159 ایکڑ، خان غلام سرور خان 240 ایکڑ، امریکہ پلٹ وزیر خزانہ این ایم عقیلی 249 ایکڑ اور ساتھ ہی بیگم عقیلی کو بھی 251 ایکڑ، بیورو کریٹس میں مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد کو 150 ایکڑ، سید حسن 150 ایکڑ، ایس ایم شریف 239 ایکڑ، این اے قریشی 150 ایکڑ دیئے گئے۔ ایوب خان کے اس شاہانہ رویے سے جرنیل بھی مستفید ہوئے، پہلے ایوب خان نے ایک بار پھر خود 247 ایکڑ اپنے آپ کو الاٹ کئے، پھر جنرل موسی کو 250 ایکڑ، جنرل امرائو خان کو 240 ایکڑ اور بریگیڈیئر سید انور 246 ایکڑ عطا ہوئے۔ زمینوں کی الاٹمنٹ کی یہ لسٹ جو 1955 میں بننا شروع ہوئی تھی، اس وقت ایک ضخیم ڈائریکٹری بن چکی ہے جس میں لاہور امپرومنٹ ٹرسٹ کے علاقے گلبرگ میں ایکڑ ایکڑ کے پلاٹوں سے لے کر نوتعمیر ہونے والے دارالحکومت اسلام آباد کے قیمتی رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کے وصول کنندگان میں سیاستدان، جرنیل، بیورو کریٹ، صحافی، سماجی کارکن، دانشور اور واعظین سب شامل ہیں۔ زمینوں اور پلاٹوں کی الاٹمنٹ تو لوٹ مار کی داستان کا نکتہ آغاز ہے۔ یہ وہ سرا ہے جسے پکڑ کر ان لوگوں اور ان کے قبیل کے ہزاروں افراد کی جائدادوں، ملوں، فیکٹریوں، پلازوں اور کاروباری سلطنتوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ تو آغاز کے لوگوں میں سے کچھ نام ہیں جنہوں نے اس مملکتِ خداداد پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھنے اور اسے لوٹنے کی بنیاد ڈالی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ایک مرحوم گورنر کے والد سیکرٹری انڈسٹریز تھے، جب ان کی شادی ہوئی تو شادی میں جو تحائف وصول ہوئے ان میں چھ مرسڈیز کاریں بھی شامل تھیں۔ یہ رشوت اور چور بازاری کا وہ سلسلہ تھا جو ایوب خان کے مارشل لا سے بہت پہلے ہی اس ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا۔ لائسنس، کوٹے، ٹیکس میں چھوٹ، ایس آر اوز، برآمدی، درآمدی اشیا کے اجازت نامے، کیا کچھ نہیں ہوا، لوٹ مار کی افراتفری میں کسی کو یاد تک نہ رہا کہ اس ملک میں ایک خطہ مشرقی پاکستان بھی ہے جو آخر کار ہم سے جدا ہو گیا۔ بھٹو کی حکومت آئی تو اس وقت اس ملک میں بائیس سرمایہ دار خاندان بہت مشہور تھے۔ بھٹو نے سب کچھ قومی ملکیت میں لے لیا اور کارپوریشنیں بنا کر لوگوں کو نوازا۔ ضیا الحق آئے تو ضبط شدہ ہزاروں ملیں اور کارخانے تو بحق سرکار ضبط ہی رہے، لیکن خصوصی شاہانہ مہربانی کرتے ہوئے تین کارخانے مالکان کو مفت واپس کر دیئے، جن میں ایک شریف خاندان کی اتفاق فونڈری بھی تھی جسے فیکٹری دوبارہ چلانے کیلئے خطیر رقم بھی دی گئی۔ سیاست، کاروبار، زراعت اور کرپشن گلے میں بانہیں ڈال کر میرے ملک کی سڑکوں پر آج بھی رقصاں ہے۔ میرے ملک کی کہانی آسکر وائلڈ (Oscar wilde) کے ناول (The Picture of the Dorian Grey)جیسی ہے۔ ناول میں ایک نیک سیرت مصور کی ایک خوبصورت نوجوان ڈورین گرے سے دوستی ہوتی ہے، جو ایک دن کسی بڑے شہر میں جا کر رہنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ نیک دل مصور اس کی ایک تصویر بنا کر اسے دیتے ہوئے کہتا ہے کہ دیکھو شہر میں اگر تم نے کوئی گناہ بھی کیا تو اس تصویر پر ایک کالا دھبہ پڑ جائے گا۔ ڈورین گرے، تصویر کو صندوق میں بند کر کے شہر کی رنگ رلیوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ وہ ہر طرح کے گناہ اور جرم میں ملوث ہو کر ایک دن پکڑا جاتا ہے اور اسے موت کی سزا ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اسے وہ تصویر یاد آتی ہے۔ وہ اسے دیکھنے کی خواہش کرتا ہے۔ صندوق سے تصویر نکالتا ہے تو اس کا چہرہ مکمل سیاہ ہو چکا ہوتا ہے۔ میرے ملک کے چہرے پر بھی سیاستدانوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس، صحافی، دانشور، سماجی کارکن اور واعظین نے اپنے اپنے گناہوں کے چھینٹے اس طرح پھینکے کہ اس کا چہرہ بالکل تاریک ہو چکا ہے۔ ایسے میں ذلت کے مارے بائیس کروڑ عوام کو کوئی بتا سکتا ہے کہ 280 ارب ڈالر سالانہ جی ڈی پی رکھنے والے ملک پر 122 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ اور 204 ارب ڈالر کے برابر اپنے بینکوں سے لیا گیا قرضہ کس پر خرچ ہوا، اور آج اس ملک کو دلدل سے نکالنے کا کوئی راستہ کسی کے پاس ہے۔ ارشاد ارشی کا شعر یاد آتا ہے۔ میرے ہاتھوں میں نہیں کوئی ہنر اب کے برس جانے کی رسم پہ کھلتا ہے یہ در اب کے برس
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here