افغانستان کی خطرناک صورتحال

0
123
پیر مکرم الحق

جس تیزی سے طالبان نے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد دوبارہ افغانستان بشمول کا بل کے اپنا قبضہ جما لیا اس صورتحال پر امریکی حکومت حیران ہوگئی ہے۔ساری دنیا میں ایک عجب سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ افغانستان کی عورتوں کے حقوق کی پامالی کا سوچ کر عالمی سطح پر تمام عورتیں پریشان ہے۔امریکا نے بیس سالوں میں چھیاسی ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرکے چھ لاکھ افراد پر مشتمل فوج تیار کی تھی جس پر ٹریننگ (تربیت) پر لاکھوں گھنٹے صرف کئے گئے اور جدید ترین تربیت اسلحہ بھی افغانی فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس تین لاکھ کی افغان فوج چند دنوں میں مٹی کے ڈھیر کی طرح زمین بوس ہوگئی۔یہ خطیر رقم اگر عالمی سطح پر بچوں میں قحط سالی پر خرچ کی جاتی تو پانچ سال میں بچوں کی خوراک میں کمی کی وجہ سے اموات پر کافی حد تک ختم یا نہایت معمولی اعداد میں ہوجاتی۔اس کی کیا وجوہات اس امریکہ میں اس پر ایک لمبی بحث چھڑ گئی۔امریکی فوج کے اکثر جنرل تو مکمل انخلا کے شدید مخالف تھے اور کھلم کھلا اس فیصلے کے شدید ناقد تھے۔ بنیادی طور پر انخلا کے فیصلے کی داغ بیل صدر ٹرمپ نے ڈالی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ مئی2021تک امریکہ افغانستان چھوڑ دیگا۔طالبان تو بیس سال سے اس دن کا شدید انتظار کر رہے تھے۔صدر بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی ہے عندیہ دے دیا تھا کہ وہ سابق صدر ٹرمپ کے انخلا والے فیصلے سے متفق ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکی عوام بھی طویل عرصہ سے اس جنگ کی آگ میں جھلس رہی تھی انکے کئی نوجوانوں اس جنگ کا ایندھن بن چکے تھے وہ اب اسے جنگ میں اپنی نئی نسل کو جھونکنا نہیں چاہتے تھے۔ویت نام کا تجربہ اب تک انکے اذہان میں تڑپ رہا ہے اور پھر مالی ذرائع کا پرائے جھگڑے میں بیجا استعمال بھی عوام کی آنکھوں میں چبھ رہا تھا۔اپنی عوام بیروزگاری اور مفلسی میں رہے اور ایک دور دراز ملک میں آپ مہنگی جنگ لڑیں یہ عوام کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں تھا۔بحرحال یہی وجہ تھی کہ منتخب صدور اور نمائندوں نے فیصلہ کیا کہ اب بات حد سے گزر گئی ہے!
باوجود جنرلوں کی مخالفت اور جلد بازی میں افغانستان کو نہیں جھوڑنے کے مشورے کے صدر جوئیڈن نے آخرکار فیصلہ کر ہی ڈالا کہ اب افغانستان کو اسکے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ انہیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ اربوں ڈالروں کے اخراجات سے جو تین لاکھ افغانی فوج تیار کی تھی وہ بغیر کسی قابل ذکر مزاحمت کے اتنی آسانی سے طالبان کو پورے افغانستان پر قبضہ کرنے دیگی۔دراصل افغان فوجی بھی اسی ملک کے باشندے ہیں انہیں بھی افغانستان میں طالبان کے ساتھ رہنا ہے امریکی فوجوں نے تو آج نہیں کل ملک چھوڑ دینا ہے ہم اپنے لئے اپنے ملک کو جہنم کیوں بنائیں ۔ پھر طالبان کو بھی معلوم تھا کہ ایک منظم فوج جن کو جدید ترین اسلحہ اور تکنیک کا علم ہے وہ انکی حکومت کیلئے ایک کارآمد ذریعہ بن سکتی ہے جس کے ذریعہ وہ اندرونی اور بیرونی محاذ پر لڑ سکتے ہیں ، یہی سوچ رکھتے ہوئے انہوں نے بھی فوج کو سمجھایا کہ افغانستان کے پاس ذرائع نہیں ہیں کیوں نہ مل کر بیٹھ کر ہم اپنا ملک خود چلائیں۔ یہ سوچ رکھتے ہوئے انہوں ایک دوسرے کی جانیں بھی بچا لیں اور بارود اور ہتھیار بھی بچا لے۔
ابھی تک تو طالبان نے کوئی بڑی خونریزی شروع نہیں کی اور فوج(افغان) نے بھی کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں کیا لیکن ایک بات تو طے شدہ ہے کہ طالبان زیادہ وقت چپ کرکے امن رکھ نہ پائیں گے۔ہزاروں افغان جو امریکی فوج کے مترجم تھے مشیر تھے انکو اپنی جان کی فکر ہے اور بلاوجہ نہیں ہے عورتوں کے پارلر بند ہوچکے ہیں طالبان کی پچھلی حکومت میں جو تشدد کھلے عام عورتوں پر ہوا تھا اسکی مثال نہیں ملتی۔ پھر داڑھی منڈوانے کو بھی ایک بڑا جرم بنا کر کوڑے اور ڈنڈے برسے تھے۔پاکستان کی بھی شامت آئیگی۔ طالبان کے کچھ دھڑے کراچی اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں آکر بسے ہوئے ہیں۔دہشتگردی،کلاشنکوف اور ہیروئن کا کاروبار پھر چمکے گا۔تحریک انصاف کی حکومت اس عہد کی کمزور ترین حکومت ہے۔طالبان کو ان سے شکایتیں بھی بہت ہیں۔امریکہ نے معاملے کی نزاکت بھانپتے ہی چھ ہزار فوجیوں کو دوبارہ افغانستان بھیج دیا ہے ایک لاکھ امریکی فوجی ابھی بھی امارات قطر اور آس پاس کے ممالک میں موجود ہیں۔ڈرون ٹیکنالوجی کے علاوہ جنگی جہازوں کی علاقہ میں موجودگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔آئندہ کے چند ہفتہ اس خطہ کیلئے کئی خطرات اور اندیشوں سے لبریز ہیں خدا خیر کرے اور امن رہے دعا کریں!۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here