فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
71

فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! سچی توبہ کے بہت زیادہ فضائل وبرکات ہیں اور سچی توبہ قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے! بے شک جب تک تو میری عبادت کرتا رہے گا اور مجھ سے مغفرت کی امید رکھے گا تو میں تجھ کو معاف کرتا رہوں گا۔ چاہے تجھ میں کتنی ہی برائیاں کیوں نہ ہوں۔ میرے بندے! اگر تو زمین بھر گناہ کے ساتھ بھی مجھ سے اس حال میں ملے کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو میں بھی زمین بھر مغفرت کے ساتھ تجھ سے ملوں گا یعنی بھرپور مغفرت کر دوں گا۔(سند امام احمد) اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے پر بہت کرم فرماتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سرور کونین ۖکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی بندہ گناہ کرلیتا ہے پھر نادم ہوکر کہتا ہے میرے رب! میں تو گناہ کر بیٹھا ہوں۔ اب تو مجھے معاف فرما دے۔ تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فرماتا ہے کہ کیا میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ اور اس کو پکڑ بھی سکتا ہے(سن لو) میں نے اپنے بندے کی مغفرت فرما دی۔ پھر وہ بندہ جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گناہ سے رکا رہتا ہے۔ پھر کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے تو(نادم ہوکر) کہتا ہے۔میرے رب! میں تو ایک اور گناہ کر بیٹھا ہوں۔ تو اس کو بھی معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے)فرماتا ہے۔ کیا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہ معاف فرماتا ہے اور پر پکڑ بھی سکتا ہے۔(سن لو) میں اپنے بندے کی مغفرت فرما دی بھپر وہ بندہ جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گناہ سے رکا رہتا ہے۔ اس کے بعد پھر گناہ کر بیٹھتا ہے تو(نادم ہوکر) کہتا ہے میرے رب! میں تو ایک اور گناہ کر بیٹھا ہوں تو اس کو معاف فرما دے تو رب تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ کیا میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہ معاف فرماتا ہے اور اس پر پکڑ بھی فرماتا ہے؟(سن لو) میں نے اپنے بندے کی مغفرت فرما دی۔ بندہ جو چاہے کرے یعنی ہر گناہ کے بعد توبہ کرتا رہے۔ اس کی توبہ قبول کرتا رہوں گا۔(بخاری شریف) توبہ کرنے والوں پر اللہ خوش ہوتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمۖ نے ارشاد فرمایا:اس شخص کی خوشی کے بارے میں تم کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی سنسان جنگل میں اپنی رسی گھسیٹتی ہوئی نکل جائے۔ جہاں نہ کھانا ہو نہ پانی اور اس اونٹنی پر اس شخص کا کھانا اور پانی رکھا ہوا اور وہ اس اونٹنی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے۔ پھر وہ اونٹنی ایک گنے کے درخت کے تنے کے پاس سے گزرے۔اس کی نکیل اس درخت کے تنے میں اٹک جائے۔ اور وہ اونٹنی اپنے مالک کو اسی حالت میں مل جائے؟ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ! ۖ اس شخص کو تو بہت زیادہ خوشی ہوگی۔ اس پر رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا: سنو اللہ تعالیٰ کی کی قسم! اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس شخ سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی اسی شخص کو سواری کے مل جانے سے ہوتی ہے۔(مسلم شریف باب فی الحض علی التوبتہ والفرح بہا حدیث نمبر6959) توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا دست رحمت ہوتا ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے روایت فرمایا ہے کہ نبی پاکۖ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ رات بھر اپنا دست رحمت بڑھائے رکھتا ہے تا کہ دن کا گنہگار رات کو توبہ کرے۔ اور دن بھر اپنا دست رحمت بڑھائے رکھتا ہے تاکہ رات کا گنہگار دن میں توبہ کرلے۔(اور یہ سلسلہ جاری رہے گا) یہا تک کہ سورج مغرب سے نکلے۔(اس کے بعد کوئی توبہ قبول نہیں ہوگی) (مسلم شریف) پس حقیقت یہی ہے کہ بندہ موت کی آخری علامت سے پہلے پہلے توبہ کرے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی کریمۖ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک غرغرہ یعنی نزع کی کیفیت شروع نہ ہوجائے۔(ترمذی تشریف) موت کے وقت جب بندے کی روح جسم سے نکلنے لگتی ہے تو حلق کی نالی میں ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی ہے جسے غرغرہ کہتے ہیں۔اس کے بعد زندگی کی کوئی امید نہیں رہتی۔ یہ موت کی یقینی اور آخری علامت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس علامت کے ظاہر ہونے کے بعد ایمان لانا یا توبہ کرنا معتبر نہیں ہوتا۔ حضرت امّ عصمہ عوصیہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ سرور کائناتۖ نے فرمایا: کوئی مسلمان گناہ کرتا ہے تو جو فرشتہ اس کے گناہ لکھنے پر مقرر ہے وہ اس گناہ کو لکھنے سے تین گھڑی یعنی کچھ دیر کے لئے ٹھہر جاتا ہے۔ اگر اس نے ان تین گھڑیوں کے درمیان کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگ لی تو وہ فرشتہ آخرت میں اسے اس گناہ پر مطلع نہیں کریگا اور نہ قیامت کے دن(اس گناہ پر) اسے عذاب دیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول پاکۖ نے فرمایا: جو شخص پابندی سے استغفار کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ ہر غم سے اسے نجات عطا فرماتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔(ابودائو دباب فی الاستغفار) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاکۖ نے ارشاد فرمایا ہے: جو شخص یہ چاہے کہ قیامت کے دن اس کا نامہ اعمال اس کو خود کردے تو اسے کثرت سے استغفار کرتے رہنا چاہئے(طبرانی و مجمع الزوائد) اللہ تعالیٰ ہمیں سچی توبہ کی توفیق عا فرمائے، آمین اور ہماری توبہ قبول فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here