سقوط ڈھاکہ کے بعد سقوط سندھ!!!

0
133
کامل احمر

ستیہ پال آنند ہندوستانی نژاد کے امریکہ میں رہائش پذیر اردو کے شاعر نقاد، اور مشہور لکھاری ہیں اور انڈین پاکستانی ادبی اور شاعری ماحول کی ایک بڑی پہچان ہیں ،یہ بھی کہتے چلیں کہ وہ گنگا جمنی تہذیب کی آخری پہچان بھی ہیں جس کے تحت ادب اور شاعری کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں۔نیویارک کے ادبی پروگراموں میں ان کی شراکت مسلسل رہی ہے، اپنی شاعری میں بھی وہ حالات حاضرہ کی عکاسی کرتے نظر آئینگے۔ان کی شاعری سے کچھ یہاں قلم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ درست ہے ،یہ بات ہم نشر میں کہہ چکے ہیں کہ جس تیزی سے دنیا تنزلی کی طرف گامزن ہے۔اخلاقی، معاشی اور ثقافتی طور پر اسے ان کی شاعری نے کیسے بیان کیا۔
کوئی کل ہے نہ فردا ہے
کسی فردا کے سورج کے نکلنے کی
کوئی خواہش نہیں ہوتی
کسی گزرے ہوئے کل کے
افق میں ڈوب جانے کا کوئی غم نہیں ہوتا
عجب بے رنگ سا ماحول ہے
دل کے احاطے کا…
غور کریں تو آپ کو احساس ہوگا۔اس سے پہلے جو شعراء آئے انہوں نے بھی کچھ تصویر کھینچی آنے والے وقتوں کی لیکن گزرے کل کی تصویر میں رنگ بھرے اور آج مایوسی کا یہ عالم ہے کہ!!
کوئی امید پر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
یہ بات صدیوں پہلے چچا غالب کہہ کر چلے گئے اور پھر علامہ اقبال نے ایک خواب دیکھا، اچھے خوابوں کی تعبیر ڈرائونی ہی ہوتی ہے اور ہم آج بھی انہیں تلاش کرتے ہیں۔
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
یہ جب کہ بات ہے جب دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک سوچ تھی اور آج ہر چیز بدل گئی ہے۔تاریخ بدل گئی ہے اور مورد الزام برصغیر کی تاریخ کو دینگے اور عربوں کی جہالت کو،اور آج بھی عربوں کی جہالت نہیں بدلی ہمارے رسول نے بتوں کو توڑ کر عربوں کو شعور دیا اور جب تک شعور تھا وہ آگے بڑھتے چلے گئے اور پھر تیل کی دریافت نے دولت کی فرادنی سے انکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔اب مشرقی وسطیٰ(ابودہابی)میں بڑے ہندو مند سوافی نرائن سن ستھا بن رہا ہے دبئی کے عقب میں جلد اس کا افتتاح ہونے والا ہے۔دوسری طرف سنا ہے سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کریگاجس کے احکامات تھے۔ہمیں اعتراض نہیں ضرور کریں لیکن ایسا کرنے سے سعودی عرب نے بھی اپنی کوئی شرائط رکھی ہیں یا صرف وہ حویسی سے خوفزدہ ہوکر ایسا کرنے پرمجبور ہے خیال رہے خانہ کعبہ کے اصل نگران یہ نہیں ترکی کہہ چکا ہے کہ2023میں حساب لیا جائیگا۔پہلی جنگ عظیم سے پہلے عرب عقابہ کے چور دروازے سے برطانیہ کی مدد سے ترکی میں داخل ہوئے تھے اور حکومت عثمانیہ کا زوال ہوگیا تھا اس سے پہلے وہاں ترکی کی حکومت تھی۔سرحدیں بدلنا، ملک تقسیم ہونا، حکومتیں بدلنا ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔تاریخ کو یاد رکھیں انڈونیشیا ایک ملک تھا اس کے تین ٹکڑے ہوگئے۔ملائیشیا اور سنگاپور اور ایسا ہونے میں ایک بھی انسان کی جان نہیں گئی۔تو پھر ہندوستان کے دو ٹکڑے ہونے پر لاکھوں معصوم اور بے گناہ انسانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے بغیر کسی وجہ کے یہ درندگی اور وحشت سکھوں ہندوئوں اور مسلمانوں میں ہی کیوں کہ آج تک ہندوستان مسلمانوں کا دشمن ہوگیا۔ایسے ملک ترقی نہیں کرتے اور نہ ہی ایسے ملک جہاں انصاف نہ ہو عام آدمی کو مثال ہمارا ملک ہے۔
14دسمبر کو پاکستان کا مشرقی حصہ علیحدہ ملک بنا جسے مغربی پاکستان کے لوگ سانحہ کہتے ہیں ،بنگلہ دیش ایک سازش کے تحت بنا تھا اور ایسا کرنے میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا اور یہ سیاستدانوں کی سازش تھی کسی ملک کی اس طرح تقسیم جس سے نفرتیں جنم لیں بالکل غلط ہے۔اور ایسے بھول جانا اور اس سے سبق لینا ضروری ہے لیکن ہم وہ قوم ہیں کہ کسی واقعہ سے سبق نہیں لیتے ویسے بھی آپ کسی قوم پر ظلم ڈھا کر حکومت نہیں کرسکتے جب کہ دونوں حصوں کی زبانیں بالکل مختلف ہوں اسرائیل کے لئے سبق ہے لیکن وہ خدائی کا دعویٰ کرتا ہے امریکہ کے بل بوتے پر اور فلسطینیوں پر عرصہ سے بم برسا رہا ہے بڑی طاقتیں خاموش ہیں۔امریکہ میں مستقبل میں جو ابتری آرہی ہے بلکہ آچکی ہے وہ بھی اسرائیل کی وجہ سے ہے جو امریکی سیاستدان جانتے تو ہیں لیکن شتر مرغ کی طرح سردبت میں چھپائے بیٹھے ہیں۔دونوں سیاسی جماعتیں اسرائیل کا مشن پورا کر رہی ہیں۔
ادھر پاکستان کے جنرلز اور سیاستدان(جو جنرلز کے تابغ ہیں)خاموشی سے سندھ میں دو طبقوں کے درمیان نفرتوں کا پہاڑ بنتا دیکھ کر خاموش ہیں۔حال ہی میں مراد علی شاہ کی سندھ اسمبلی میں دھمکی آمیز تقریر جس میں اس گیدڑ صفت وزیراعلیٰ نے فوج اور وفاق کو دھمکی دی ہے۔”صوبہ سندھ کی بدقسمتی کہ جاہل مخالفت سے پالا پڑا ہے اور وفاق میں بھی جاہل اپوزیشن ہے جس پر ایک جاہل وزیراعظم تعینات ہے”اور مزید بکواس کی ہے کہ”ایسے حالات پیدا نہ کریں کہ ہم کچھ اور سوچنے پر مجبور ہوجائیں”یہ دھمکی پاکستان سے علیحدگی کی ہے اور بغیر انڈیا کی مدد کے ناممکن کیا یہ مجیب الرحمن کی زبان نہیں کیا باجوہ صاحب کو وارننگ نہیں مراد علی شاہ مزید کہتا ہے ہمیں پاکستان کا حصہ سمجھیں۔ابھی تک اس گدھے کو معلوم نہیں کہ سندھ کو اس کے حوالے کیا ہوا ہے۔اور کالے سفید کا مالک ہے باجوہ صاحب وہ ہی حالات پیدا کر رہے ہیں جو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے سے پہلے تھے۔اورآنے والے کل میں وہ تو باہر ملک میں بیٹھے ہونگے اور میڈیا اور لکھاری ایک اور ”سقوط سندھ کی باتیں کر رہے ہونگے سندھ کے ان موذی سانپوں کو سربل سے باہر آنے سے پہلے کچلنا ضروری ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here