انتخابی ناخدا…!!!

0
157
ماجد جرال
ماجد جرال

مثبت رپورٹنگ کر کے بھی کیا ملا؟اس نالائق صادق و امین ٹولے نے پاکستان میں ایک بار پھر چوروں اور ڈاکوئوں کی اقتدار کے ایوانوں میں واپسی کی راہ ہموار کردی۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے دو بیانات تاریخ میں ہمیشہ وطن عزیز کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ میں گھناونا کردار ادا کرنے کی سند رہیں گے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ تنقید کی زد میں ہی رہیں گے۔ایک وہ جب مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں معاشی اعشاریے اور ملکی حالات ان کی سابقہ حکومت یعنی پیپلز پارٹی سے بہتر تھے، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری، امن و امان کی مخدوش صورتحال سمیت دیگر مسائل کا سامنا نہیں تھا مگر آئی ایس پی آر کا بیان سامنے آتا ہے کہ پاک فوج کو ملکی کی معاشی صورتحال پر شدید تشویش ہے۔جب ملک میں غریب طبقہ کے لیے کھانا پینا یا بنیادی ضروریات زندگی کا حصول قدر آسان تھا اور چیئرمین نیب اٹھ کر بیانات دغا کرتے تھے کہ ملک سے روزانہ چار ارب روپے کرپشن کی نظر ہورہے ہیں۔جب معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرنے اور روزانہ کرپشن کی خبریں دینے والے اداروں نے عدلیہ کے ساتھ مل کر سابقہ حکومت کا بوری بستر گول کروایا، خصوصا تاریخ یاد رکھے گی کے پانامہ کے 400 سے زائد مقدمات میں سے صرف ایک مقدمہ عدالتی ترجیحات میں شامل رہا بلکہ اس کے لیے نگران جج بھی تعینات کیا گیا۔دوسرا بیان موجودہ حکومت کہ ابتدائی ایام میں ہی معیشت کو لگنے والے دھچکوں، کرپشن کی جنم لیتی کہانیوں، اقربا پروری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے باوجود فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے تمام میڈیا کو اکٹھا کرکے درخواست کی گئی کہ مثبت رپورٹنگ کی جائے۔۔۔۔اس مثبت رپورٹنگ کا دورانیہ بھی سیٹ کرکے دیا گیا تھا کہ صرف چھ ماہ ۔ جی ہاں صرف چھ ماہ۔ان چھ ماہ کو ملک کے آرمی چیف کی طرح ایکسٹینشن بھی نوازی گئی۔ میڈیا پرسن کی ان احکامات کی بجاآوری کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے والی ٹیم نے رات کو دن، نااہلی کو قابلیت، پانی کو دودھ ثابت کرنے سمیت سابقہ حکومت پر اس کی ذمہ داریاں ڈالنے کی بھرپور کوششیں کی۔ مگر سوال پھر بھی وہی ہے کہ اس مثبت رپورٹنگ کا ہمیں کیا فائدہ ہوا۔دوسری جانب ان شیخ چلی حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ترغیب دینے والے صحافیوں کے ساتھ کیا کیا سلوک نہ برتا گیا مگر جناب اس مثبت رپورٹنگ کا کیا فائدہ ہوا۔فائدہ ہوا تو صرف آپ کی نوسربازیوں کو چار دن کی زندگی مل گئی، آپ کی انا کو کچھ تسکین مل گئی مگر اس کی قیمت یہ اٹھانا پڑی کہ جن نامعلوم لوگوں کو نام بند کمروں میں بھی بڑی مدہم آواز میں لیا جاتا تھا، ان کے ناموں کو چوراہوں کے درمیان بآواز بلند پکارا جانے لگا۔مثبت رپورٹنگ تو جناب زمینی حقائق کی ہوتی ہے، جب زمینی حقائق ہی مثبت نہ ہوں تو پانی میں جتنا مرضی مدھانی چلوا لیں نتائج آپ کی مرضی کے نہیں آئیں گے۔ پاکستان میں ضمنی انتخابات اور اب کے پی کے کے مقامی انتخابات اس مثبت رپورٹنگ کے سیراب کی دھجیاں اڑا چکا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں بے بس عدالتوں سے جن کو نااہل ،کرپٹ کہلوایا گیا آج انہی چوروں اور ڈاکوں کو عوام کی عدالت کن القابات سے نواز رہی ہے یہ انتخابی نتائج اور زمینی حقائق ان فیصلوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ خدا راہ مثبت رپورٹنگ چاہتے ہیں تو پہلے زمینی حقائق مثبت بنائیں۔ انتخابی ناخدا بننے سے کچھ نہیں ہوگا ، الٹا بدنامی ہی مقدر بنی رہے گئی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here