یاد نہیں کب سے میرے پرس میں پڑا ہوا پچاس کا نوٹ ،میرے ساتھ ساتھ آوارہ گردی میں مصروف رہا۔ چند روز قبل میں اپنے ایک اضافی پرس میں سے کوئی چیز دیکھ رہا تھا کہ اچانک پچاس کا یہ نوٹ میرے ہاتھ لگ گیا، پاکستانی پچاس روپے کا نوٹ امریکا کے 25 سینٹ یعنی کواٹر کے برابر بھی آج کی تاریخ میں نہیں رہا، آج ایک لمحے کے لیے اگر ہم اپنے ماضی کے گذشتہ بیس برسوں کا جائزہ لیں، تو ہمیں احساس ہو گا کہ پچاس روپے کا یہ نوٹ کتنی ویلیو رکھتا تھا، آپ سے بیس برس قبل میں کالج میں بارویں جماعت کا طالب علم تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ پچاس روپے کا نوٹ اگر کبھی گھر سے مل جاتا تو اس تنبیہ کے ساتھ کہ فضول خرچی مت کرنا، پچاس روپے کا نوٹ جیب میں پڑتے ہی شخصیت میں بھی قدرتی طور پر طبیعت میں ایک عجیب سا نکھار آجاتا، جاتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کی کینٹین سے چائے اور بسکٹ کھانے، واپسی پر کسی دوست کے ساتھ سموسہ چاٹ یا دہی بھلے کھانے کی دکان پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر واپس آکر پارک کے قریب دوست کے ہمراہ ایک بار پھر چائے کا دور چل جاتا۔ یہ ہم جیسے کالج کے طالب علموں کی ایک مناسب عیاشی سمجھی جاتی تھی، اب کبھی کبھار پاکستان میں اپنے کسی یونیورسٹی یا کالج فیلو سے بات ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ آج کے زمانے میں پچاس روپے کا یہ نوٹ ایک یا دو انڈوں کی قیمت ادا کرپاتا ہے، پچاس روپے کہ اس نوٹ کی اہمیت شاید بیس برس قبل دو یا تین روپے کے برابر رہ گئی ہے،مگر مجھے افسوس اس بات پر نہیں ہوا امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی حیثیت کیا رہ گئی ہے، بلکہ دُکھ کی بات تو یہ تھی کہ پاکستان کے اندر بھی پچاس روپے کی اہمیت دم توڑ چکی ہے۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں گزشتہ پندرہ سالوں میں دنیا بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی ہے، اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑی ہیں اور مہنگائی نے بھی اپنے جلوے خوب دکھائے ہیں۔پاکستان میں کرنسی کی ویلیو کس قدر تیزی سے گلی ہے اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے آپ دنیا کے اس وقت جس ملک میں بھی ہے وہاں کے 50 کے نوٹ کو اپنی جیب میں رکھ کر بیس برس قبل اور آج کے دن کا جائزہ لیں تو بہت زیادہ فرق نظر آنے کے باوجود بھی کرنسی کی ویلیو میں کمی کا یہ فرق آپ کے لیے بہت زیادہ پریشان کن نہیں ہوگا۔ مثلا امریکہ میں بسنے والے پچاس ڈالر کے نوٹ کا ہی جائزہ لیں تو بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پچاس ڈالر کا نوٹ جیب میں رکھ کر آپ انڈے دودھ اور گروسری کا کچھ سامان خریدنے کے قابل نہیں، بے شک اتنا نہیں خرید سکتے جتنا پچاس ڈالر میں شاید بیس برس قبل خریدا جاسکتا تھا۔مگر پاکستان میں تو یہ صورتحال پریشان کن حدوں کو چھو رہی ہے، کرنسی کی تنزلی درحقیقت پاکستان کی معیشت اور معاشرے کی گرتی ہوئی صورت حال کی عکاسی کرتی ہے، یہ ہمیں بتاتی ہے کہ بیس برس قبل اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق آچکا ہے، پاکستان کے حکمرانوں اور اصل حکمرانوں سے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ خدا کا واسطہ اس ملک کو اپنی انا پرستی اور سیاسی چالبازیوں کی نظر کرنا چھوڑ کر کچھ ایسا کر دے جس سے غریب کا بھلا ہو، اور بیس برس بعد مجھ جیسا کوئی بندہ بیٹھ کر یہ نہ سوچ رہا ہوں کہ یہ پانچ ہزار کا نوٹ بیس برس قبل کتنا طاقتور ہوتا تھا۔
٭٭٭