پاکستان میں آئے روز ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے پاکستان کی نیک نامی پر سوال اُٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے افغانستان کے سفیر کی بیٹی کا مبینہ اغوا بھی انہی واقعات میں سے ایک کہا جا سکتا ہے۔ اس واقعے کی سنگینی کا اندازہ یوں لگائیے افغانستان نے احتجاجاً پاکستان سے پورا سفارتی عملہ واپس بلا لیا ہے۔ افغانستان سے متعلق آپ کے جو بھی رائے ہو مگر سفارتی عملہ اگر کسی ملک میں محفوظ نہ ہو تو اس ملک کے تعلقات دیگر ممالک کے ساتھ شدید متاثر ہوتے ہیں۔اس واقعے کے بعد دیگر سفارت خانوں نے بھی اپنے اہلکاروں کو محتاط رہنے کی ہدایات جاری کی ہیںاگرچہ افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا کے متعلق اور بھی باتیں سننے کو آرہی ہیں جس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ڈرامہ افغانستان حکومت کی جانب سے رک جایا گیا اور ان کی بیٹی اغوا نہیں ہوئی بلکہ ازخود کر ایف نائن پارک پہنچیں اور وہاں سے آپ نے اغوا ہونے کی کہانی شروع کر دی۔اب تک کی معلومات کے مطابق اسلام آباد پولیس کے اس واقعے کی کی تحقیقات کر رہی ہے۔ چند ٹیکسی ڈرائیور سمیت دیگر افراد سے بیانات بھی لے لیے گئے ہیں۔اس واقعے کو حتمی انجام تک پہنچانا پاکستان کے لئے بہت ضروری ہے۔اس کی تحقیقات میں کسی صورت غفلت برتنے اپنے جیسا کوئی بھی عمل شامل نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت کی بدنامی کا باعث بننے والا یہ واقعہ اگر آج نا حتمی انجام تک پہنچایا گیا تو مستقبل میں ایسے واقعات پاکستان کوبدنام کرنے کے لیے ہوتے رہیں گے۔اب چاہے اس میں پاکستان ان سے کوئی ملوث ہے یا افغانستان سے، تفتیشی اداروں کو سامنے لانا چاہئے۔پاکستان میں اگر سفارتی عملے کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر مضبوط ہو گیا تو اس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق لڑکی کو کسی بھی ٹیکسی ڈرائیور کی جانب سے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا ،اس سلسلے میں تمام ویڈیو ریکارڈ کی بھی جانچ کی گئی ہے جس میں لڑکی کو کسی ٹیکسی ڈرائیور سے لڑتے یا جھگڑتے نہیں دیکھا گیا جبکہ لڑکی نے اپنے موبائل سے تمام ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے کے بعد اسے سیکیورٹی فورسز کے حوالے کیا ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے ، حکومت وقت کو اس واقعے کی تحقیقات کا ایک بڑا چیلنج سمجھ کر قبول کرنی چاہئے اور تحقیقات کو عوام کے سامنے لا کر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لانی چاہئے۔
٭٭٭