تیرا…میرا جنرل اور جج کی لڑائی !!!

0
21
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان میں آج تیرا۔ میرا جنرل اور جج کی لڑائی جاری ہے ایک طرف جنرل فیض حمید کا ٹولہ اور جنرل عاصم منیر کے بہی خواہ ہیں دوسری جانب جج قاضی عیٰسی اور جج منصور علی شاہ کے پیروکار ہیں جس میں ملک میں اب نسلی لسانی اور صوبائی نفرتوں اور حقارتوں میں اضافہ ہوا جن کی آڑ میں محمود غزنوی، عوری، سوری، لودھی، ابدائی، نادری اور دوسرے حملہ آوروں کی نسلیں اور اولادیں آئے دن پنجاب پر چڑھائی کرتے نظر آتے ہیں یہ جانتے ہوئے موجودہ پاکستان چار صوبوں اور اکائیوں پر مشتمل ہے جن کے باشندے ایک دوسرے علاقوں سے صدیوں سے آباد ہیں جس میں پختونخواہ اور بلوچستان کے بلوچوں اور پشتونوں سے زیادہ بلوچ اور پشتون پنجاب میں آباد ہو کر پنجابی بن چکے ہیں مگر پھر بھی پٹھان اور بلوچ ذات یا برداری سے پہنچانے جاتے ہیں اس طرح سندھ میں غیر سندھی آباد کار یا نئے سندھی کروڑوں میں آباد ہیں جو آدھی آبادی سندھ کی غیر سندھیوں کی ہے۔ ایسے میں خدانخواستہ کس نسلی اور لسانی یا قومیت کی بنا پر جھگڑا ہوگیا تو کراچی سے کئی گنا زیادہ نقصان ہوجائے گا جس طرح1947میں مذہب کے نام پر پنجابی سکھوں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے دس لاکھ انسان مار ڈالے تھے۔ تاہم ملک میں آج تیرا۔ میرا جنرل اور جج کا جھگڑا ایک دن ضرور رنگ لائے گا تب تک دیر ہوجائے گی جس کو پاکستان کے جنرلوں اور ججوں نے غیر ذمہ دارانہ طور پر پیدا کیا۔ بعض لوگوں کی مسلسل حمایت کی گئی تھی جواب سانپ سے اژدھا بن چکے ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہوچکا ہے جن کا نعرہ اب صرف اور صرف ملک میں انتشار اور خلفشار پھیلانا باقی ہے۔ بعض حضرات1971والا بنگال کا سماں پیدا کرنے میں مصروف ہیں کہ پاکستان کو مزید توڑ دیا جائے۔ جس کے لیے پورے ملک میں علیحدگی پسندوں کی تحریکوں کو قوت بخشی جارہی ہے جس سے ثابت ہوا ہے کہ پاکستان واقعی ہی ایک برطانوی فوجی چھائونی تھی جو اب مسمار کی جارہی ہے جس کی اب ضرورت باقی نہیں ہے اگر پاکستان ایک ریاست ہوتی تو پھر کبھی نہ ٹوٹتا ہے۔ ناہی ملک میں آئین شکنی ہوئی جیسا کہ جنرلوں نے پانچ مرتبہ آئین توڑا۔ دو مرتبہ منسوخ اور تین مرتبہ معطل کیا۔ جس کو ججوں نے جائز قرار دیا۔ بعض وکیلوں ایس ایچ ظفر اور اے کے بروہی آئین کے مدمقابل نظریہ ضرورت پیش کرکے ریاست پاکستان کو شدید آئینی اور قانونی طور پر نقصان پہنچایا تھا وہ لوگ کل جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے اعمال میں برابر کے شریک تھے وہ آج ہاتھوں میں ڈنڈے لیے ملک میں اٹھارہویں ترمیم کے دشمن کسی نامعلوم آئینی ترمیم کے خلاف گھوم رہے ہیں جن کو جنرلوں اور ججوں کی مکمل حمایت حاصل ہے تاکہ ایسی کوئی پارلیمنٹ کی ترمیم نہ آجائے کہ جس میں عدلیہ کے اختیارات میں کمی قانون سازی میں مداخلت سے ججوں کو روکا جائے یا پھر بے لگام جنرلوں پر قابو پایا جائے۔ جو جج صاحبان پارلیمنٹ کو بالاتر ادارہ تصور کرتے ہیں ان کا بعض وکلاء سے گھیرائو جاری ہے۔ جو ججوں کے سامنے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بہرحال تیرا۔ میرا جنرل اور جج جھتے بازی جاری ہے جس سے اداروں میں تقسیم در تقسیم ہوچکی ہے جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ریاست پاکستان چند دنوں کی مہمان ہے لہٰذا اس گناہ میں خوب نہالو جو آج نظر آرہا ہے کہ کے پی کے کے جھتے باز لاہور پر حملہ آوری کے لئے کو شاں نہیں یہ جانتے ہوئے کہ لاہور میں راجہ رنجیت سنگھ کی بھی نسلیں پائی جاتی ہیں جو جاگ پڑا تو پھر وہی ہوگا جو ماضی میں ہوا تھا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here