فرزانہ فرحت : آوازِ دلِ شکستہ!!!

0
25
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

ڈاکٹر فرزانہ فرحت نے پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور لندن میں مقیم ہو گئیں۔ آپ کے درجِ ذیل شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ بدلتی شام کے سائے، خواب خواب زندگی، آنسو، اور فصلِ آرزو۔ ان شعری مجموعوں کے عنوانات ہی اس حقیقت کی گواہی ہیں کہ آپ کی شاعری میں سوز و درد ہے۔ زندگی خواب خواب ہو، یا قطر اشک ہو جو سرِ مژگاں خونیں آنسو بن کر رقصندہ و تابندہ ہو یا یہ آرزو کی وہ فصل ہو جو سنگلاخ اور بنجر زمیں میں آبیاری کے لیے بارانِ رحمت کی طلب گار ہو۔ ہر حال میں ایک کیف و کیفیتِ سرمدی سے شاعرہ مخمور و مسحور ہیں۔ وہ پیدائشی شاعرہ ہیں۔ تبصرہ نگار بھی ہیں۔ یہ بات حیران کن ہے کہ آپ لندن میں پروفیشنل تھیراپسٹ کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ گیسوئے شاعری بھی سنوار رہی ہیں۔ رائل امریکن یونیورسٹی نے آپ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں آپ کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ آپ کو متعدد عالمی اسناد، اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا جو آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف ہے۔آپ کا پانچواں شعری مجموعہ بعنوان نشانی جو زیرِطبع ہے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے کیونکہ یہ ایک طرف داستانِ ہجر ہے تو دوسری طرف یہ انسانوں کے دکھوں کی اجتماعی کتھا ہے۔ آپ نے اِس کتاب کا انتساب اپنے والدِ گرامی ڈاکٹر فضل حق صاحب کے نام کیا ہے۔ یہ منظوم انتساب ایک خطابیہ دلسوز و دلگداز احساسات کا آیینہ دار ہے اور ہر اس شخص کے دل کی آواز ہے جو وطن سے دور دیارِ غیر میں مقہور و مجبور ہے۔ اگر ہمارا کشورِحسیں صرف پاکستان کے ترانے کشورِحسیں شاد باد تک محدود نہ ہوتا اور ہمیں جاگیرداری، ملائیت، آمریت ، سرمایہ داری اور نوکر شاہی سے نجات ملتی اور ہمیں عدل و انصاف اور حقیقی جمہوری نظام میسر ہوتا تو کیوں ہمارے ہم وطن روزگار کی خاطر دیارِغیر میں سرگرداں رہتے۔ بقول مرزا غالب!
مارا دیارِ غیر میں مجھ کو وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی لاج
انتساب کے اشعار وطن سے دوری کا نوحہ ہیں۔کہتی ہیں
شہر سے اجنبی ہوں میں بابا
جانے کتنی چلی ہوں میں بابا
مجھ کو سائے بھی اب ڈراتے ہیں
خوف سے کانپتی ہوں میں بابا
میں جو گڑیوں سے کھیلتی تھی کبھی
دکھ سے اب کھیلتی ہوں میں بابا
روزگار کی تلاش میں وطن سے دور ایک بیٹی کی اِس فریاد نے میرا دل دہلا دیا اور میری آنکھوں نے اشکوں سے وضو کیا تو یہ اشعار پڑھ کر اس باپ کے دل پر کیا گزری ہو گی جس کی گڑیا بچپن میں گڑیوں سے کھیلتے کھیلتے دیارِغیر کی اجنبیت اور تنہائی کا شکار ہو گئی ہو۔ لعنت ہے کشورِحسیں کے ان حاکموں پر جن کی دولت کا کوئی حساب نہیں اور دیارِغیر ان کے لیے دیارِغیر نہیں کیونکہ ان کی وہاں قیمتی جائیدادیں اور املاک ہیں۔ تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو۔دیارِ غیر میں رہنا باعثِ معاشی آسودگی سہی لیکن غریب الوطنی دل کو ویران کر دیتی ہے۔ انسان بے شناخت ہو جاتا ہے۔ احساسِ کمتری روح کی گہرائیوں تک اتر جاتا ہے۔ تنہائی اور افسردگی ذہنی بیماریوں کا شکار بنا دیتی ہیں۔ بے وطنی انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ حفیظ جونپوری کا شعر ہے!
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے(جاری ہے)
غریب الوطن کے لئے ہر بزم بزمِ غیر ہوتی ہے۔ فرزانہ فرحت کا المیہ بھی بے وطنی کا سوگ ہے۔ کہتی ہیں
دور تک اس کی محبت کے جو افسانے گئے
لوگ سارے شہر کے سنگ برسانے گئے
کس قدر چھائی ہوئی تھی چار سو افسردگی
کس لیے اس بزم میں ہم دل کو بہلانے گئے
پاں سے لپٹی رہی تھی خانہ ویرانی کی ریت
ہم وہ وحشی تھے، ہمارے ساتھ ویرانے گئے
یہی وہ احساسِ تنہائی ہے جو ایک زندہ ضمیر اور باشعور انسان کو انسانوں کے جنگل میں تنہا کر دیتا ہے۔ اسی المناک سماجی اورانسانی صورتِحال کے بارے میں مولانا روم نے کہا تھا
دی شیخ باچراغ ھمی گشت گِردِشہر
کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
بس یہی وہ المیہ ہے کہ جس انسان کی رومی کو تلاش تھی ویسے انسان کی فرزانہ فرحت کو بھی تلاش ہے۔ کہتی ہیں
تم آ جا تو مِل کرطے کریں صحرا جدائی کا
اکیلے ہم سے ریت اِس دشت کی چھانی نہیں جاتی
آپ نے اساتذہ کی مشکل زمینوں میں بھی طبع آزمائی آزمائی کی ہے۔غالب کی ایک مشہور غزل ہے جس کا ایک شعر ہے
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غمِ بری بلا ہے
مجھے کیابرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
اِس بحر میں کامیاب غزل کہنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ فرزانہ فرحت نے یہاں بھی عمدہ غزل کہہ کے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ کہتی ہیں
میں ترے قریب آ کر تجھے کس خوشی سے ملتی
مرے راستوں میں غم کاجو نہ یہ غبار ہوتا
فرزانہ فرحت کی شاعری کو میں نے آوازِ دلِ شکستہ قرار دیا ہے۔ ولیئم ورڑزورتھ ( William Wordsworth) شاعر کو معاشرے کا حساس ترین شخص قرار دیتا ہے ۔ شکستہ دلی کا چاہے جو بھی سبب ہو، دلِ آزردہ کی فغاں حقیقی اور فطری شاعری ہے اور اِس معیار پر فرزانہ فرحت کی شاعری پوری اترتی ہے۔ شکستہ دل کے بارے میں علامہ اقبال نے خوب کہا تھا
تو بچا بچا کے نہ رکھ اِسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
اِسی شکستہ دلی، افسردگی، تشنگی اور بے چینی کی بدولت انہیں کہنا پڑا
کس لئے ہے میرے دل میں تشنگی ہی تشنگی
کیوں محبت کی زمیں ہے کربلا میرے لئے
جہاں آپ کی شاعری میں دردِ محبت کی فراوانی ہے وہاں دردِ انسانی بھی وجدانی ہے۔ کہتی ہیں
ہیں خوف سے سہمے ہوئے انسان یہاں پر
اِس شہر میں بارود کی یہ کیسی دھمک ہے
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آپ کی شاعری عرفا ن اور وجدان کا حسین سنگم ہے۔ روایت اور جدت کی آئینہ دار ہے -اردو شاعری میں گراں قدر اضافہ ہے-
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here