بے بس ریاست!!!

0
98
شبیر گُل

ریاست پاکستان انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پی ڈی ایم اور خان صاحب نے ایک دوسرے کے خلاف کمر کس لی ہے۔ رانا ثنا اللہ اور ن لیگی قیادت لانگ مارچ کو روکنے کا بندوبست کر چکے ہیں۔ لیکن عمران خان کا لانگ مارچ جاری ہے۔ دونوں اطراف سے تلخی بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں پی ڈی کو لانے والے سکرپٹ رائٹر پریشان ہیں۔ حالانکہ عمران کی حکومت کے سکرپٹ رائٹر بھی یہی جرنیل تھے۔ سکرپٹ وہی ہے۔ صرف مہرے تبدیل ہوئے ہیں،جاتے جاتے جنرل باجوہ عمران خان کو مشکل وقت دینا چاہتے ہیں۔ لیکن عمران خان کی ساتھ لوگوں کاجم غفیر دیکھ کر اسٹیبلشمنٹ محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ مہنگائی اور بے انصافی میں پسے لوگ عمران خان کی کھل کر سپورٹ کررہے ہیں۔ اسوقت عمران خان کا آزادی منجن دھڑا دھڑ بک رہاہے۔ عورتیں ،بوڑھے اور نوجوان موجودہ نظام سے آزادی کے لئے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سنجیدہ حلقے سمجھتے ہیں کہ نہ تو عمران خان کے آنے سے دودھ کی نہریں بہیں گی اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں کی جانے سے کوئی تبدیلی ہوگی۔ پونے چار سال میں اگر عمران خان احتساب کے اداروں، عدلیہ، وفاقی اداروں کو مضبوط کرتے تو آج حالات اس نہج پر نہ ہوتے۔ پی ٹی آئی عمران خان کو (عقل کل )سمجھتی ہے۔ قائداعظم سے بڑا لیڈر سمجھتی ہے۔ اس لیے اس پر مر مٹنے کے لئے تیار ہے۔ پی ٹی آئی کی ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے جنگ اسٹیبلشمنٹ کی پی ڈی ایم سے قربت ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کا سیاسی مداخلت پر وضاحتیں دینا دراصل سیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے۔ پی ٹی آئی میں مختلف جماعتوں کا ملغوبہ جمع کیاگیاتھا۔اس میں سے یہی کچھ نکلے گا۔ کبھی واڈا نکلے گا۔ کبھی علیم خان اور کبھی اے ٹی ایم مشین جہانگیر ترین۔ کچھ نہ کچھ نکلتا رہے گا۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ، ایم کیو ایم اور مختلف جماعتوں کو جمع کرکے پی ٹی آئی کو طاقت بخشی گئی۔ انکے تقریبا ہر لیڈر کی زبان اسکے کردار اورشخصیت کی غما زی کرتی ہے۔ بد تہذیبی،بداخلاقی ان سیاسی جماعتوں کا حصہ ہے۔ سیاسی جماعتوں میں لیڈروں کی بہتات ہے۔ چھٹے پھوکے ولگر لوگوں کا ہجوم تقریبا ہر پارٹی میں موجود ہے۔ ٹالرنس کی کمی ہے۔سسلیین مافیا، پی پی کے فاشزم اور ایم کیو ایم کے بوری بندوں سے ٹکر میں یہی لوگ مقابلہ میں آسکتے تھے۔ پی ٹی آئی کی ٹائیگرز فورس مستقبل کی ایم کیو ایم ہے۔ عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی کو للکار کر فوج کو defensive پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔ جرنیل اگر سیاست میں ملوث نہیں تو انہیں صفائیاں دینے کی کیا ضرورت ہے۔ افواج پاکستان کو سرحدوں کی حفاظت پر رہنے میں ہی عزت و توقیر ہے۔ صحافیوں اور سیاسی رہنماں کو ہراساں کرنا، گھروں سے اُٹھانا، ننگا کرنا، سیکورٹی اداروں کے لئے بدنامی اور رسوائی کا سبب ہے۔ جرنیل یہ کام گزشتہ ادوار میں بھی کرتے رہے۔ جس سے عوام کے اندر نفرت پیدا ہوئی۔ماضی میں جنرل باجوہ کو گالیاں دینے والے آجکل باجوہ گینگ کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ خواجہ آصف اور ایاز صادق باجوہ کو پینٹ گیلی ہونے کا طعنہ دیتے رہے۔ لیکن آج فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عمران خان فوری انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جسے اسٹیبلشمنٹ ماننے کو تیار نہیں۔ان حالات میں جوڈیشری کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اگر حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو مارشل لا کو خارج از امکان نہیں سمجھنا چاہئے۔ فوج اور اسٹیبلشمنٹ کبھی نہیں چاہیں گے کہ عمران خان مضبوط ہویا اقتدار کی مسند پر بیٹھے ۔عمران خان نے بیک وقت کئی محاذ کھول دئیے ہیں۔ حالات دن بدن تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سنجیدہ لوگ کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتے۔ ارشد شریف کا دردناک قتل ریاست کی بے بسی ظاہر کرتا ہے لیکن عوام یہ ماننے کو تیار نہیں۔ پاکستان ایک غیر مستحکم ہورہاہے۔ معیشت اور کاروبار تباہ ہوگیا ہے۔ اپوزیشن اور حکومتی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتھ صحافی پس گئے ہیں۔ صحافیوں میں خوف و ہراس کوئی نئی بات نہیں ۔ جو کام آج ہورہا ہے ڈکٹیڑوں کے دور کو دہرایا جارہا ہے۔ معروف ٹی وی اینکرمعید پیرزادہ بھی ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ معروف صحافی ارشد شریف کا قتل انتہائی اندوہناک واقعہ ہے اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس واقعہ نے پوری قوم کو سوگوار کیا۔ اسٹبلشمنٹ ،سیکورٹی ادراروں اور موجودہ حکومت کے خلاف عوام میں غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔ وہ کونسی خلائی،فضائی یا طلسماتی مخلوق ہے جو صحافیوں کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ ٹیلفون پر نتائج بھگتنے کے لئے فون کالز روزانہ کامعمول ہے۔ اسٹبلشمنٹ، حکومت اور سیکورٹی ادارے اس سے انکار کرتے ہیں۔ کیا پاکستان میں کوئی ایسی فورس وارد ہوچکی ہے جس کا علم موجودہ سیکورٹی اداروں ،انٹیلی جنس،اور پولیس کو بھی علم نہیں ۔ ؟اور یہ لوگ دندناتے پھر رہے ہیں۔ چادر اور چاردیواری کا تخفظ پامال کرتے ہیں۔ بغیر وجہ بتائے اٹھا لیتے ہیں۔ کوئی عدالت انکی سرزنش نہیں کرتی، عمران خان فوری انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جسے اسٹیبلشمنٹ ماننے کو تیار نہیں۔ان حالات میں جوڈیشری کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اگر حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو مارشل لا کو خارج از امکان نہیں سمجھنا چاہئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here