آج پھر دل بہت اُداس ہے کیونکہ ہمارے درمیان سے ایک ایسی ہستی اس دارِ فانی سے کُوچ کر گئی جس کے ہماری قوم پر بڑے احسانات ہیں، ان کی پوری زندگی سماجی اور سیاسی عذابوں کو جھیلتے ہوئے گزری ہے، اپنے ہی لوگوں کے درمیان اجنبیت کے شدید احساس سے بھی دوچار ہیں انہوں نے تقسیم کے بعد نئے ملک اور قوم کے مسائل بھی دیکھے، سیاسی ریشہ دوانیوں سے بھی دوچار صورتحال، جمہوریت اور بنیادی جمہوریت کے تماشے، آرڈیننسوں کے ذریعے حقوق و آزادی کے چھن جانے کے سانحے بھی دیکھے اور میں ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں کہ مجھے ان سے شرف ملاقات بھی ہوا اور وقتاً فوقتاً فون پر بھی باتیں کرتے تھے بس ان کو صرف اور صرف پاکستان کی فکر رہتی تھی، کافی عرصہ سے علیل تھے، مگر جب بھی موقع ملتا تھا سلنڈر لگا کر بھی ادبی تقریب میں آجاتے تھے، گفتگو میں ایسی عاجزی اور انکساری ہوتی تھی کہ جیسے وہ ہم سے کچھ سیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی کتاب ”باتیں کراچی کی” شائع ہوئی تو اس کی بہت پذیرائی ہوئی یہ کتاب جو تقریباً پونے سات سو صفحات پر مشتمل ہے ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے، کراچی شہر کا ایک ایک ذرہ بولتا ہوا نظر آتا ہے، کراچی کے حالات کو صرف قلم بند نہیں کیا بلکہ شہر کی زندگی کی قریب قریب تمام پہلوئوں کی ایک تصویر بھی بنا کر کتاب کی شکل میں محفوظ کر دیا۔ یہ کتاب نہیں بلکہ ایک ریکارڈ ہے جو آنے والے وقتوں میں عام قاری سے لے کر مستقبل کے مؤرخ تک ہر ایک کا بیش قیمت حوالہ بنے گا۔ اس سے بہتر کراچی پر اور کوئی کتاب نہیں لکھی جا سکتی اور نہ ہی کوئی لکھ پائے گا۔ باتیں کراچی کی اپنی جہتوں اور موضوعات کے اعتبار سے یقیناً ایک مختلف اور منفرد کتاب ہے۔ ان کی کتابوں کو ہماری حکومت کو چاہیے کہ کالج اور یونیورسٹیوں کے سلیبس میں داخل کیا جائے۔ کیونکہ ان کی یہ کتابیں خاص طور پر طلباء کیلئے معلومات کا ایک خزینہ ہے باتیں کراچی کیُُ کے بعد جو انہوں نے حقیقت پر مبنی ”باتیں پاکستان” کی جو 447 صفحات پر مشتمل ہے جس کے بارے میں ہمارے دانشوروں نے اپنے خیالات کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے۔ عبدالرحمن ایڈووکیٹ، سلمان یونس کا حافظہ غضب کا ہے۔ مشاہدہ گہرا ہے اور طرز تحریر سادہ لیکن پُرکشش ہے، جناب جمیل عثمان اس طرح لکھتے ہیں سلمان یونس کے حافظہ پر حیرت ہوتی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے واقعات انہیں یاد تھے۔ ڈاکٹر صابر علی ہاشمی نے لکھا ہے انہیں قیام پاکستان سے اب تک مفاد پرست قسم کے رویے سے شکایت رہی ہے لیکن اس کیساتھ ساتھ وہ موجودہ نسل کے نوجوانوں سے بہت سی امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ ایسے میں جبکہ والدین بھی اپنی اولادوں سے مایوس ہیں انہیں کسی قسم کی مایوسی نہیں ہے۔ ”باتیں پاکستان کی” ایک تاریخ بھی ہے اس کا ہر باب بڑی تفصیل اور محنت سے لکھا گیا ہے اور بھی بہت سی باتیں لکھی گئی ہیں لیکن یہ کتاب کچھ اور ہی کیفیت رکھتی ہے پاکستان کن کن مراحل اور ادوار سے گزر کر یہاں تک پہنچا کس طرح کے حالات سے دوچار رہا، حکمرانوں کے حالات اور ادوار موجودہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات کیا ہیں ان کیساتھ ایک تنقیدی نظر بھی موجود ہے، پاکستانی سماج جن بیماریوں میں مبتلا ہے ان کا بھی احوال ہے اور ان بیماریوں سے شفاء یابی کیلئے علاج بھی تجویز کیا ہے۔ سلمان یونس طالب علمی کے زمانے سے ہی سیاست میں دلچسپی لیتے تھے اور لیڈری کرتے تھے وہ ایک عرصہ تک بہ طور صحافی کام رکتے رہے۔ ”لیل و نہار” جیسے رسالے میں ‘سو ہے، وہ بھی آدمی” کے سلسلے میں ان کی رپورٹس میں چھپتی تھیں۔ میڈیکل صحافت میں بھی اپنا نام روشن کیا، میڈی پبلیکیشن کے نام سے کراچی میں ایک ادارہ قائم کر کے پاکستان کی پہلی میڈیکل ڈائریکٹری میڈی گائیڈ جاری کی، پاکستان کی سیاست کے اکھاڑ پچھاڑ کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ایوب خان اور ضیاء الحق کے دور میں آمریت کیخالف بھی سینہ سُپر رہے اور شہر بدر کر دیئے گئے ایوب خان کیخلاف محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور ان کے جلسوں میں نہ صرف شرکت کی بلکہ دھواں دار تقریر بھی کی۔ اپنی علالت اور ضعیف العمری کے باوجود ایسی کتابیں لکھ رہے ہیں اور قوم کو وہ باتیں بتلا رہے ہیں جنہیں بھلایا جا چکا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر شاید نوجوان نسل کو یہ احساس ہو کہ پاکستان میں رشوت، چور بازاری، ملاوٹ، اقرباء پروری اور دوسری برائیاں کتنے بڑے پیمانے پر ہوتی ہیں اور شاید وہ اس کے تدارک کیلئے اُٹھ کھڑے ہیں۔ اپنی کتاب میں اقرار الحسن کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ وہ نڈر سپاہی ہے جس نے ملک دشمنوں، مذہب اور انسانیت کے دشمنوں کیخلاف ان کے غلیظ اور داغدار چہروں پر پڑے دبیز پردوں کو چاک کرنے میں اپنے دیگر ساتھیوں کیساتھ مل کر صرف ان کا ہی نہیں بلکہ دوسرے کرپٹ اور بے ایمان افسر شاہی کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے جسے نہ انعام کی پرواہ ہے نہ تعریفی کلمات کی غرض، مجھے یقین ہے ذرا آواز دے کر تو دیکھو تمہاری نسل تمہین ہر گز نا امید نہیں کرے گی۔ میں یہاں ہیوسٹن میں مقیم ہوں بیماری کے باعث میں ہمیشہ تمہارے لئے دعا گو ہوں میری تم سے ملاقات نہ ہو سکی وعدہ کرو کہ تم نے میری خاموشی پر مجھے معاف کر دیا اور میری موت کی خبر پا کر میرے لئے اللہ سے بخشش کی دعا ضرور کرنا۔ اور وہ اس دار فانی سے کُوچ کر گئے۔ کتنے عرصے سے وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں میں مبتلا رہے ،جب بھی سنو ہسپتال میں ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں 88 سال کی عمر میں شدید علالت میں اپنے پاس بلا لیا۔ بیماری کے د وران ان کے دونوں صاحبزادوں ریحان یونس غالب اور سید ناصر یونس نے جس طرح اپنے والدین کی خدمت میں دن رات ایک کر دیئے اللہ تعالیٰ ہر ماں باپ کو ایسی اولاد نصیب کرے، اللہ تعالیٰ نے فجر کیو قت ان کی روح قبض کی اور جمعہ کے مبارک دن ان کی تدفین کتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، شدید گرمی کے باعث لوگوں نے شرکت کی۔ نمازجنازہ حمزہ مسجد میں ادا کی گئی اور تدفین آئی ایس جی ایچ کے نئے قبرستان والر 290 والر پر کی گئی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭