الیکشن کمیشن کی فعالیت برقرار!!!

0
45

ترجمان الیکشن کمیشن نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کے استعفی اور انتخابی عمل سے متعلق شکوک و افواہوں پر وضاحتی اعلامیہ جاری کیا ہے۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کی مدت ملازمت گزشتہ برس جولائی میں ختم ہو ئی،اس مدت میں ایک سال کی توسیع دی گئی۔ترجمان الیکشن کمیشن نے وضاحتی اعلامیہ میں کہا کہ مستعفی ہونے والے سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید محنتی افسر تھے ۔وہ پھیپھڑوں کے عارضہ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنے فرائض انجام نہیں دے پا رہے تھے۔ترجمان الیکشن کمیشن کی وضاحت کے ساتھ نگران وزیر اطلاعات کا رد عمل بھی آیا ہے۔ وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے مستعفی ہونے والے سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جلد صحت یابی کے لئے دعا کے ساتھ کہا کہ الیکشن کمیشن فعال ہے اور کسی طرح کا بحران موجود نہیں۔ پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ آٹھ فروری مقرر کی گئی ہے۔الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کرا چکا ہے، ریٹرننگ اور ڈپٹی ریٹرننگ افسران بیوروکریسی سے لے کر ان کی تربیت کی گئی،امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی سکروٹنی لگ بھگ مکمل ہونے والی ہے۔امیدواروں کی حتمی فہرست جلد جاری ہونے والی ہے۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو اشتہاری ضابطہ سے آگاہ کر دیا ہے۔یہ تیاریاں بتاتی ہیں کہ الیکشن چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب قاضی فائز عیسی کی ہدایت اور الیکشن کمیشن کی مقررہ تاریخ پر ہونے والے ہیں۔ان تیاریوں اور جاری اقدامات کے باوجود انتخابات سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش بہر حال نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد تمام سٹیک ہولڈروں کو درپیش بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کی مالی اور انتظامی آزادی کو عدلیہ کی غیر جانبداری، پریس کی آزادی اور منصفانہ انتخابی عمل کے لیے بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ملک میں قبل ازیں ایسی روایات رہی ہیں کہ میڈیا پر پابندیاں عائد ہوتی رہیں، اپوزیشن جماعتوں کی آزادانہ مہم چلانے کی صلاحیت کو محدود کیا گیا اور ووٹرز کو دھمکایا جاتا رہا۔یہ معاملات سیاسی نظام سے عوام کی بیزاری اور انتخابی نتائج کی قانونی حیثیت کو کمزور کرنے کا باعث بنے ہیں۔انتخابی سرگرمیوں پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنے سے اس عام تاثر کو روکا جا سکتا ہے کہ بعض کھلاڑی عوامی مینڈیٹ میں ہیرا پھیری کرتے ہیں۔وطن عزیز کی انتخابی تاریخ پری پول، پولنگ ڈے اور پوسٹ پول دھاندلی سے بھری پڑی ہے۔ 1970 کے عام انتخابات کے دوران پی پی پی کی جانب سے شفافیت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ 1977 کے انتخابات پری پول اور پول ڈے دھاندلی کی وجہ سے بدنام ہوئے۔ 1988 کے عام انتخابات نے پی پی پی مخالف سیاسی اتحاد کی تشکیل کے ذریعے انتخابی عمل میں مداخلت کا ٹھوس ثبوت فراہم کیا۔ 1990 کے عام انتخابات میں، منظم انتخابی فنڈنگ کی سرگرمیاں ہوئیں۔2002 کے انتخابات کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ ٹارگٹ سیاسی جماعت کے ناپسندیدہ امیدواروں کو ختم کرنے کے لیے انتخابات سے پہلے اور بعد کے دونوں مراحل میں دھاندلی کی گئی تھی۔ 2008 کے انتخابات زیادہ تر مرکز کے اثر و رسوخ سے متاثر نہیں ہوئے۔ 2013 کے انتخابی نتائج کی توثیق جوڈیشل انکوائری کمیشن کے نتائج سے ہوئی۔ مزید برآں، الیکشن 2018 نے بھی الیکشن انجینئرنگ کے خاطر خواہ ثبوتفراہم کئے۔عام آدمی اس نوع کے انتخابی نظام سے بیزار ہو چکا ہے،شائد یہی وجہ ہے کہ جونہی کوئی جماعت یا گروہ انتخابی عمل پر شکوک کا اظہار کرتی ہے عوامی سطح پر اسے درست مان لیا جاتا ہے۔اس صورتحال میں الیکشن کمیشن ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت پر بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ لوگوں کا انتخابی عمل پر بھروسہ برقرار رکھیں۔ انتخابات کسی بھی ملک میں سیاسی نظام کا امتحان ہوتے ہیں۔ جمہوری طرز حکومت میں ریاست کو عوامی نمائندوں کے ذریعے چلانے کا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ حکومت کی مختلف سطحوں پر عوامی نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری انتخابی طریقہ کار کو آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ بنانا ہے۔ انتخابات کے انعقاد میں سیاسی جماعتوں نے عموما عدم تعاون کا مظاہرہ کیا ہے۔سیاسی جماعتیں اپنے داخلی انتخابات باقاعدگی سے نہیں کراتیں، حسابات کا ریکارڈ جمع نہیں کراتیں۔ٹکٹ دیتے وقت اہلیت اور قومی صلاحیت کو مد نظر نہیں رکھتیں، اقربا پروری کی جاتی ہے،انتخابی عمل سے پیسے کا عمل دخل ختم کرنے کے لئے کوشش نہیں کی جاتی۔اس حالت میں جو نمائندے منتخب ہوتے ہیں ان سے ریاست کی خدمت کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ بعض صورتوں میں انتخابات کے دوران حکومت کے ناکافی کردار کی وجہ سے انتخابی نظام پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ قانونی اور معاشی خود مختاری کو منصفانہ انتخابات کے اجزا کے طور پر ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ قانونی اور معاشی خودمختاری کو معتبر انتخابی اجزا کے طور پر ترجیح دی جانی چاہئے۔الیکشن کمیشن اور حکومت کی وضاحت پر یقین کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان جس نوع کے سیاسی عدم استحکام کا شکا ہے اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ملک میں آزادانہ اور شفاف انتخابات ہوں۔انتخابی عمل کے ساتھ شکوک اور غیر شفافیت لپٹی رہے تو انتخابات کرانے کا بنیادی مقصد ختم ہو جاتا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ ترجمان الیکشن کمیشن اور وزیر اطلاعات نے جو وضاحت پیش کی ہے اس کے بعد انتخابی انتظامات میں تعطل کی افواہوں کا خاتمہ ہوگا اور الیکشن کمیشن کی فعالیت پر اٹھنے والے سوال دم توڑ جائیں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here