اسلام آباد (پاکستان نیوز) حکومت کی جانب سے عدلیہ کو قابو میں لانے کیلئے آئینی ترامیم کا ڈرامہ بری طرح فلاپ ہو گیا ہے ، مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم شہباز شریف ، صدر آصف زرداری سمیت کسی بھی اعلیٰ سیاسی شخصیت کی بات ماننے سے انکار کر تے ہوئے ترامیم کی حمایت کو صاف ناں کہہ دی ہے ، بانی تحریک انصاف عمران خان نے مولانا کے اقدام کو قابل ستائش قرار دیتے ہوئے سابق صدر عارف علوی کے ذریعے مولانا کو پیغام بھجوایا ہے جس میں ان کے اقدام کی حمایت کی گئی ہے ۔اتوار کے دن حکومت کی جانب سے بلائے گئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس اس لیے شروع نہ ہوسکا کیونکہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے 26ویں آئینی ترمیم پر حکومت کی حمایت کرنے کی حامی نہیں بھری تھی۔ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے اس ترمیم کی حمایت کی یقین دہانی نہ کروانے پر اتوار کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کا بھی انعقاد نہ ہوسکا۔اس دوران حکمراں اتحاد، جس نے اپنے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ہر حال میں پارلیمنٹ ہاؤس میں موجود رہنے کی ہدایت کر رکھی تھی، کے اراکین تقریبا 14 گھنٹے پارلیمنٹ کے اندر ہی گھومتے رہے اور اپنی قیادت سے سوال کرتے رہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس کب شروع ہوگا؟ تاہم قومی اسمبلی کا اجلاس تلاوت کلام پاک کے بعد ختم کردیا گیا جبکہ سینٹ کا اجلاس ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ملتوی کردیا گیا۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قومی اسمبلی میں آٹھ جبکہ سینٹ میں پانچ اراکین ہیں لیکن آئینی ترامیم نے پارلیمنٹ میں 13 نشستیں رکھنے والی جماعت کو بڑی جماعتوں سے بھی زیادہ اہم بنا دیا ہے۔حکمراں اتحاد کی کوشش تھی کہ انھیں اس آئینی ترمیم پر مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت مل جائے، جبکہ دوسری طرف پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی چاہ رہی تھی کہ مولانا فضل الرحمان ان کے موقف کی حمایت کریں اور عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم منظور نہ ہوسکے۔حکمراں اتحاد اور پی ٹی آئی کے رہنما اتوار کو بار بار مولانا فضل الرحمان کے گھر پر ملاقاتوں کے لیے پہنچے اور اس دوران ان کی امامت میں نمازیں ادا کرنے کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں تاہم ان ملاقاتوں کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کسی بھی جماعت کو اپنی حمایت کا یقین نہیں دلایا۔رواں برس عام انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمان پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ناراض نظر آئے۔ انھوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے اور پارلیمنٹ کو بھی ‘جعلی’ قرار دیا۔پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکمراں اتحاد کے رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو حکومت سازی کے وقت نظر انداز کیا اور مولانا اب اس بات کا ‘انتقام’ لے رہے ہیں۔تجزیہ کار ضیغم خان نے بتایا کہ پاکستان کی سیاست میں’مولانا کی حیثیت بہت کم ہوئی ہے، خیبرپختونخوا میں مقبولیت بہت کم ہو گئی ہے اور اس کی وجہ سے حکمراں اتحاد نے مولانا فصل الرحمان کو حکومت بنانے کے بعد اہمیت نہیں دی۔اب چونکہ انھیں آئینی ترامیم کے لیے مولانا فصل الرحمان کی ضرورت ہے تو حکمراں اتحاد کی جماعتیں ان کے پیچھے جا رہی ہیں ورنہ اس سے پہلے انھوں نے جمعیت علمائے اسلام کو کوئی لفٹ نہیں کروائی۔ضیغم خان کا مزید کہنا تھا کہ مولانا صاحب حکمراں اتحاد کو شرمندہ کرسکیں گے وہ کریں گے کیونکہ ان جماعتوں نے انھیں شرمندہ کیا تھا اور نظرانداز کیا تھا۔پاکستانی سیاست پر کڑی نگاہ رکھنے والے اینکرپرسن اور تجزیہ کار حامد میر بھی ضیغم خان کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔