اسلام آباد (پاکستان نیوز)آخر کار اتحادی حکومت نے وہ کام کر دکھایا جس کے لیے وہ اقتدار میں آئی تھی، کرپشن کیسز میں گرفتاریوں اور عدالت حاضریوں سے اکتائے حکمرانوں نے نیب کیخلاف انتقامی کارروائی کرتے ہوئے کرپشن کے زمرے میں گرفتاری کے حوالے سے قوانین میں 34ترامیم کر کے ان کو غیر فعال کردیا ہے جس سے کرپٹ مافیا کی موجیں لگ گئی ہیں ، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط نہ کرنے کے باوجود حکومت نے بل کی منظوری دے کر اس کو نافذ العمل کر دیا ہے ، جس سے پاکستان کو 2400 ارب روپے کا نقصان ہوگا ، شریف خاندان اور زرداری خاندان کے تمام کرپشن کے کیسز ختم کر دیئے گئے ہیں ،نیب قوانین میں تمام ترامیم 1.1.85 سے لاگو ہوں گی اسکا فائدہ ملزمان کو ہو گا، اہلِ خانہ کے اثاثے ملزم کے اثاثے تصور نہیں ہوں گے،اثاثوں کو ناجائز ثابت کرنے کی ذمہ داری نیب پر ہوگی ، ملزم جوابدہ نہیں ہوگا۔ملزم کی جائیداد کی قیمت مارکیٹ کی بجائے DC ریٹ پر ہو گی، یعنی اربوں کی جائیداد کروڑوں میں ظاہر کرو اور نکل لو۔دورانِ کیس ملزم متنازعہ جائیداد فروخت بھی کر سکتا ہے (مدعا غائب کرنے کی اجازت)، کیس ثابت نہ ہو تو نیب افسر کو 5 سال سزا ہوگی، اب کون رسک لے گا طاقتور کے مقابلے میں؟یہ اصل ایجنڈا تھا PDM کا، اور یہ عوام کا درد لیکر آئے تھے،50 کروڑ روپے سے کم کرپشن کا کیس نیب میں نہیں چلے گا، 100 سے کم افراد کے ساتھ فراڈ کا کیس بھی نیب میں نہیں چلے گا۔ایوان زیریں سے منظور ہونے والے اس بل پر کچھ حلقے تنقید کر رہے ہیں جبکہ کچھ انہیں خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بدھ کے دن قومی اسمبلی نے نیب قوانین میں مختلف ترامیم کی منظوری دی تھی، جس کے مطابق اب صدر کی بجائے وفاقی حکومت متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے مشورے سے احتساب عدالت کے جج کو مقرر کرے گی۔حکومت کی طرف سے یہ بل وزیر مملکت برائے قانون و انصاف شہادت اعوان ایڈووکیٹ نے پیش کیا۔ دوسرا ترمیمی احتساب بل 2022 ء کے مطابق اب کسی ملزم پر اْسی عدالتی علاقے میں مقدمہ چلایا جائے گا، جہاں جرم سرزد ہوا ہے۔ اس کے علاوہ چیئرمین نیب کو یہ اختیار ہوگا کہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے کسی بھی ریفرنس کو وہ ختم کر سکے۔ نیب ہائی کورٹ کی اجازت سے نگرانی کا اختیار رکھتا تھا لیکن اب اس اختیار کو بھی ختم کر دیا گیا ہے اور اس حوالے سے وفاقی حکومت کی ایجنسیاں بھی اس کی معاونت نہیں کر سکیں گی۔اس بل کی وجہ سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت پر تنقید ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت نیب قوانین کو ختم کرنے آئی ہے تاکہ اپنے کرپشن کے کیسز دبا سکے۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ پہلے کی طرح اب بھی اس بل کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔پارٹی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس حوالے سے بتایا کہ موجودہ ٹولہ اپنی کرپشن کیسز کو چھپانے کے لیے ہی اقتدار میں آیا ہے۔ پہلے بھی انہوں نے قوانین میں ترمیم کی اور اب لگتا ہے کہ یہ اربوں کی جگہ 49 کروڑ کے چھوٹے چھوٹے ڈاکے ماریں گے تاکہ وہ نیب کے دائرہ اختیار میں نہ آسکیں،اقبال آفریدی کے بقول اب حکومت پچاس کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کے مقدمات کو اینٹی کرپشن عدالتوں میں لے جائے گی۔ وہاں ججوں پر حکومت کا دباؤ ہو گا اور وہ اس کے خلاف سزائیں نہیں سنا سکیں گے تاہم کچھ دوسرے مبصرین کے خیال میں یہ تبدیلیاں خوش آئند ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی نے بتایا کہ نیب قوانین کو زیادہ تر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور سیاستدانوں کو بد نام کرنے کے لیے اس ادارے کو ہتھیار کے طور پر چلایا گیا۔ لہذٰا اس میں ترامیم ضروری تھیں اور میرے خیال میں یہ ترامیم مثبت ہیں۔انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ اس سے حکمران طبقے کو فائدہ ہوگا۔ آفریدی کے مطابق نیب کے اختیار کو صرف محدود کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اس کے پاس اب بھی اختیار ہے کہ وہ پچاس کروڑ روپے سے اوپر کے کرپشن کے کیس کی تفتیش کرے اور وہ ثبوت جمع کرے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہ خاورکا کہنا ہے کہ یقیناً اس سے وہ سارے مقدمات اثرانداز ہوں گے، جو 50 کروڑ سے اوپر کے ہوں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایاپچاس کروڑ سے نیچے کے مقدمات اینٹی کرپشن کورٹس میں منتقل ہو جائیں گے اور وہ نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوجائیں گے۔