آج ہم پاکستانی سیاست کی75سالہ تاریخ کے نہایت ہی خطرناک اور لاقانونی دور سے گزر رہے ہیں۔ یوں کہئے کہ جو کچھ ہم کیفFUNNELمیں ڈالتے رہے ہیں وہ کیف کے پیندے سے نتھر نہیں رہا ہے اور اٹک گیا ہے۔ اور جو لوگ اس میں شریک ہیں واضح طور سے کہہ سکتے ہیں ان میں نہ صرف سیاسی پارٹیاں شامل ہیں جن میں نون لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی ہے بلکہ آرمی جنرلز بھی بھرپور انداز میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں کبھی مارشل لگا کر اور اب ڈرا دھمکا کر اور پریس کانفرنس کرکے حالات کو بگاڑ رہے ہیں پچھلے دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی آئی ایس آئی کے جنرلوں نے جو پریس کانفرنس کی امن کی ضرورت نہ تھی کہ پڑوسی ملک کو ہنسنے اور وہاں کے میڈیا کو کارٹون بنانے کا موقعہ دیا۔ سیدھی سی بات ہے کہ چور کی داڑھی میں تنکا اگر حالات خراب ہیں تو انکے پاس اختیارات ہیں کہ سنبھال سکتے ہیں لیکن ایسا وہ ہی کرسکتا ہے جو شفاف ہو۔ خود کو سیاست میں آلود کرکے کہا جاتا ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں مذاق لگتا ہے کبھی آپ ہمارا فخر تھے لیکن آپ نے ان ہی لوگوں کو گدی پر لا بٹھایا جو آپ کو ذلیل کرتے رہے ہیں انکے سارے جرائم معاف کردیئے۔ کیوں؟ عوام آپ سے اچھے کی توقع کرتے تھے اور اب بھی امید کرتے ہیں کہ سرحدوں پر لڑنے والے فوجیوں کی قربانیوں کو عزت دیں احترام کریں۔ ارشد شریف کے واقعہ سے بھی آپ نے سبق نہیں سیکھا۔ انور مقصود صاحب کا یہ کہنا ”یہاں دشمن سے زیادہ محافظ سے خطرہ ہے بیماری سے زیادہ طبیب سے اور مجرم سے زیادہ منصف سے خطرہ ہے” ،اس حوالے سے کہتے چلیں کہTIMEمیگزین کی2جون کی اشاعت خصوصی میں جو دنیا کی100ایسی شخصیات کے حوالے سے تھی اس میں عدل وانصاف کے پیرائے میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا نام بھی تھا اور ان پر اعتزازاحسن نے لکھا تھا کہ یہ کہ لمبیا اور کیمرج کے پڑھے ہوئے ہیں لیکن انکی نرم شخصیت نے ابھی تک کچھ ایسا نہیں کیا یا کرنے سے روکا گیا کہ ہم کہہ سکیں کہ ان میں کوئی جرات اور قانون کی پاسداری ہے کہ کسی بھی ملک کا سپریم کورٹ اور اسکے ججز ملک میں لاقانونیت کو روکنے کیلئے ڈھال ہوتے ہیں، امریکہ یا مغرب کے کسی بھی ملک کو لے لیں۔ سزا اور جزاء کا قانون اثرانداز کیا جاتا ہے لیکن عوام یا سیاسی بحران کو انصاف فراہم کرنے میں139ویں نمبر پر ہیں کسی بھی پسماندہ افریقن سے ملک سے موازنہ کیا جاسکتا ہے، حال ہی میں کینیا کے شہر نیروبی میں جو کچھ ہوا تحقیق کو غلط راستے پر ڈال کر بری ذمہ ہوگئے۔ دو بھائیوں وقار اور خرم کی نشان دہی کی گئی لیکن ابھی تک معاملہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ اطراف میں روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی کہ کس کس بات کا ذکر کیا جائے اور سیاست کی بساط پر کھڑے ان مہروں جس میں باجوہ صاحب بھی سرگرم رہے ہیں بیرونی طاقت کے دبائو کے تحت کہ چار سال پہلے جب نون لیگ کی حکمرانی تھی اور الیکشن میں مداخلت کی گئی تھی تو عمران خان نے چار حلقوں کو کھولنے کا کہا تھا ۔دوسرے معنوں میں مطالبہ کیا تھا لیکن اس کی بات پر عمل نہیں کیا گیا۔ اس میں سپریم کورٹ بھی شامل تھا کہ آنے والے وقت میں رات کے بارہ بجے عمران خان کی حکومت کو الٹ دیا۔ اگرچہ کہ کوئی بہتر نعم البدل لاتے تو اچھا ہوتا لیکن ان لوگوں کے ہاتھ میں حکومت دے دی جو سند یافتہ ڈاکو تھے اور فوج کو ہر طرح سے سخت سست کہا تھا ساتھ ہی چیلنج بھی کیا گیا تھا کبھی باجوہ صاحب نے سوچا کہ عوام کی کتنی تضحیک ہوئی ہے اور پڑوسی ملک کا میڈیا چیخ چیخ کر کیا کہہ رہا ہے۔
اور کیا اس وقت خواجہ آصف و وزیر دفاع نے سوچا اور کوئی بیان دیا کہ اب انہیں آزادی ہے کہنے کی کہ عمران خان پاکستان کے ازلی دشمن(انڈیا) کا ترجمان بن گیا ا یک پاکستانی کی پہچان کی تمام لکیریں پاس کر گیا خواجہ آصف سٹھیا گیا ہے کبھی بھی اس شخص نے مفاہمت آمیز بیان نہیں دیا حکمرانی کرتے ہوئے بھوسے میں چنگاری ڈالی ہے۔ حکومت کے غلط طور طریقوں اور معاشی حالات خراب ہونے پر کس ملک میں احتجاج نہیں ہوتا؟ احمقوں کی کس جنت میں رہتا ہے ادھر وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کیا کم ہے آگ لگانے اور اسے بھڑکانے کے لئے کہ مارچ کے اعلان کے ساتھ ہی اسلام آباد میں بندرگاہوں سے تمام کنٹینر لاکر چاروں طرف کے راستے بند کردیئے جب کہ عمران خان کہہ چکا ہے کہ وہ کوئی ہنگامہ کرنے نہیں آرہے البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ثناء اللہ کی دھمکیوں اور اس کے پرانے ریکارڈ(ماڈل ٹائون اور پچھلا مارچ) کی روشنی میں تیاریوں کے ساتھ ہوں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارا محافظ اللہ کے بعد باجوہ یہ سب دیکھ رہا ہے کیا امریکہ نے اس کو یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے آپ نے خاموشی سے دیکھنا ہے اور خدا نہ کرے کہ کچھ بھی ہو۔ عمران خان کا ایک اور صرف ایک مطالبہ ہے کہ الیکشن کی تاریخ دو، اور ایسا کرنے سے موجودہ حکمران منہ موڑے کھڑے ہیں۔ ظاہر ہے اب یہ کام عدلیہ مطلب عمر عطا بندیال کا ہے کہ وہ سوموٹو ایکشن لیں اور باجوہ سے رجوع کریں اور ملک کو خون خرابے سے بچائیں۔
یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد قطعی نہیں کہ عمران خان الیکشن جیت کر فوری طور سے سب کچھ کرلینگے اس میں بہت وقت لگے کہ ملک کا گھیرائو مختلف شکلوں میں سیاست دانوں، جنرلوں، تاجر مافیا پولیس اور عدلیہ نے کیا ہوا ہے۔ اور جب تک اس ملک سے و ڈیرہ شاہی اور چودھراہٹ کی مافیا ختم نہیں ہوتی کچھ نہیں ہونے کا اور آج جو کچھ جس انداز سے ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان کے چار ٹکڑے جو18ویں ترمیم کے نتیجے میں کئے گئے تھے اب پریکٹیکل انداز میں ہونے جارہے ہیں یہ ہماری پیشن گوئی ہے ممکن ہے آخر میں صرف پنجاب ہی پاکستان رہ جائے۔ سوچیں اور غوریں ہمارے جنرلز کہ وہ بیرونی طاقتوں کی جی حضوری کم کریں۔ انسان صرف ضمیر کا تابع ہونا چاہئے۔ بھول جائیں کہ ہم مسلمان ہیں غور کریں کہ کیا ہم انسان بھی ہیں ڈی جی آئی ایس آئی اپنی اس بات کو ثابت کرکے دکھائیں جو انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا تھا”سلامتی کی صورتحال کو قابو کرنے کیلئے جو بھی وسائل ہیں بروئے کار لائینگے اور اوچھے ہتھیاروں اور22کروڑ عوام کو اس ہجوم اور مارچ کو ثناء اللہ کی طرح جتھہ نہ کہیں آج نہیں تو کل معلوم ہوگا عوام ہی طاقت ہے! اور الیکشن کی تاریخ دینا ہی ملک میں سلامتی لاسکتا ہے!۔
٭٭٭٭٭