کرکٹ کے ورلڈ کپ کا جنون ابھی اُترا بھی نہ تھا کہ سوکر ورلڈ کپ کی بے چینی دِل کو بیتاب کرنے لگی ہے۔ یہ ایک ایسا ولولہ انگیز تماشا ، آنکھوں کو متحیر کرنے والا نظارہ ہے جسے دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے ایک ملین سے زائد لوگ قطر کا رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ طرح طرح کی افواہیں گشت کر رہی ہیں ، کہانیاں جنم لے رہی ہیں۔ ورلڈ کپ کے مقابلے میں شرکت کرنے والے کھلاڑی اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت انسان قرار دے رہے ہیں ، لیکن ایسے کھلاڑی بھی موجود ہیں جن کا شمار دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے تاہم گوناگوں وجوہات کی بنا پر اُن کی شرکت مفقود ہوگئی ہے۔ ٹورنامنٹ کا پہلا میچ میزبان قطر کی ٹیم اورایکواڈور کے مابین تھا جس میں بدقسمتی سے قطر کو 2 گول سے شکست ہوگئی۔ اب تک کی تاریخ رہی ہے کہ میزبان ٹیم ہمیشہ پہلے میچ میں فاتح ہوئی ہے لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اُسے شکست ہوئی۔ بہرکیف ایک اسلامی ملک میں سوکر کے ورلڈ کپ کامنعقد ہونا نیک شگون ہے اور اِس سے اسلامی ممالک میں سوکر کے کھیل کے نشاة ثانیہ کا آغاز ہوسکتا ہے۔ دوسرے میچ میں ایران کو انگلینڈ کے ہاتھوں بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور6-2 سے ہار گئی۔ انگلینڈ کی ٹیم مسلسل کھیل پر غالب رہی۔ 2022ء افریقی کپ کا چیمپئن سینگال 2 گول سے نیدرلینڈ کے ہاتھوں ہار گیا۔ امریکی ٹیم جو مسلسل ویلز سے جیت رہی تھی آخری لمحہ میں پینالٹی کی بنا پر اِسکا اسکور برابر ہوگیا۔ فیفا کے صدر جانی اِنفانٹینو نے ایک پریس کانفرنس میں قطر ی حکومت اور ورلڈ کپ کی انتظامیہ کے خلاف جھوٹا پروپگنڈا کرنے والوں کی مدمت کرنے پر مجبور ہوگئے اور کہا کہ ” یہ میرا ادراک ہے کہ یورپی ممالک نے گذشتہ تین ہزار سال تک اِس روئے زمین پر قتل و غارت ، لوٹ مار ، درندگی و عصمت دری کی جو تاریخ رقم کی ہے ، کیا وہ آئندہ تین ہزار سال تک اُس پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کرتے رہینگے۔ ”شومئی قسمت ہے کہ جس دِن فیفا نے یہ فیصلہ کیا کہ سوکر کا ورلڈ کپ 2022 ء قطر میں منعقد ہوگا۔ اُسی دِن سے روزانہ کی بنیاد پر اعلی قطری حکام اور مختلف ممالک کی سول سوسائٹی آرگنائزیشنز اور بزنس ٹائیکونز سے اِس کے تنازعات شروع ہوگئے۔ مغربی ممالک کی سول لبرٹی کی تنظیموں نے قطر کی حکومت پر یہ الزام عائد کیا کہ اُن کے ملک میں بنیادی حقوق کا فقدان ہے ، اسلئے سوکر کے شائقین 2022ء ورلڈ کپ کو دیکھنے کیلئے وہاں نہ جائیں۔ بعد ازاں سول لبرٹی کا ڈھکونسلاکچھ زیادہ ہی واضح الفاظ میں افشا ہوگیا اور امریکا کی ہم جنس پرست کی تنظیم نے یہ عذر پیش کیا کہ قطر میں ہم جنس پرستی خلاف قانون ہے اور کوئی بھی ہم جنس پرست جوڑا برسر عام بوس و کنار کرتے ہوے گرفتار ہوسکتا ہے۔ قطر کی حکومت نے اِس الزام کی تائید کی اور معذرت کرتے ہوے عرض کیا کہ اگر آپ لوگ نہ آئیں تو زیادہ بہتر ہے ، اور اگر آئیں تو اپنی ہم جنس پرستی کی شناخت کو چھپا کر رکھیں ، اور رین بو فلیگ کو لہرانے سے بھی گریذ کریں۔
تاہم ابھی یہ تنازع جاری تھا کہ قطر کی حکومت نے ایک اور اہم قدم اٹھایا۔ اُس نے حکم دیا کہ بیئر
فروخت کرنے کے شامیانے جو بڈ وائزر نے سوکر کے 8 اسٹیڈیم کے استقبالیہ میں لگائے ہیں اُنہیں فوری طور پر منہدم کیا جائے۔ بعد ازاں قطر کی حکومت کے اہلکاروں نے خود اُسے وہاں سے اٹھا کر پھینک دیا۔ یہ حکم قطری حکومت کے کسی اعلی افسر یا کسی بارسوخ شیخ کی جانب سے نہ تھا بلکہ اِس کے صادر کرنے والوں میں قطر کے شاہی خاندان کے تین اہم افراد پیش پیش تھے۔ قطر کی حکومت نے مزید کہا کہ وہ اِس ضمن میں نہ ہی کوئی وضاحت اور نہ ہی کوئی تاویلیں پیش کرے گی۔ بڈ وائیزر نے فیفا کو اپنے پروموشن
کیلئے 75 ملین ڈالر کی رقم ادا کی تھی اور ورلڈ کپ اسپانسر کرنے کا معائدہ بھی فیفاسے کیا تھا جس کے تحت بڈ وائیزر ہر ورلڈ کپ کے انعقاد کے موقع پر 75 ملین ڈالر کی رقم ادا کرتی رہیگی۔
قطر میں شراب نوشی ممنوع نہیں ہے لیکن جام نوش کرنے کی اجازت صرف بار یا گھر میں ہے۔ بڈ وائیزر کی انتظامیہ بلاشبہ اِس قانون کی دھجیاں اُڑا رہی تھی اور کھلے عام بیئر فروخت کرنے کا شامیانہ نصب کر دیا تھا جس سے امن عامہ کو نقص پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ مغربی ممالک میں اِس کاروائی پر بھی انتہائی شور غوغا مچایا گیا کہ قطری حکومت نے بیئر کے ٹینٹ کو اُجاڑ کر رکھ دیا ہے، اب وہاں جانے کا
فائدہ کیا ہے۔
قطر اور دوحہ میں اسٹیڈیم کی تعمیر کیلئے کام کرنے والے مزدوروں کی جانب سے بھی گلہ و شکوہ کا سلسلہ جاری ہے اور مغربی ممالک کے اخبارات میں اِس کی سرخیاں متواتر لگائی جارہی ہیں۔ تعمیری کام سر انجام دینے والے مزدوروں نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ کنٹریکٹروں نے اُن کی اُجرتیں ادا نہیں کیں ہیں یا کنٹریکٹ کی تمام شقوں کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ بیماری کی بنیاد پر ایک دِن کی غیر حاضری پر دو دِن کی اجرت کو روک لیا جاتا تھا۔ مزدوروں کے طعام و قیام کا انتظام بھی انتہائی ناکارہ تھا جو مزدور کام کے دوران ہلاک ہوجاتے تھے اُن کے ورثا کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا تھا۔ اسٹیڈیم میں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت کا تعلق نیپال سے تھا۔ فیفا کے حکام نے اِن تمام شکایتوں کو یکسر مسترد کردیا ہے
ہے اور اِس کے صدر جانی اِنفاٹینو نے سعودی عرب کی حکومت سے یہ استدعا کی ہے کہ وہ 2030 ء کے ورلڈ کپ کو اپنے ملک میں انعقاد کرانے کیلئے کاغذی کاروائی شروع کردے۔ 2026ء کا ورلڈ کپ تین ممالک کے ساجھے سے جن میں امریکا، کینیڈا اور میکسیکو شامل ہیں وہاں منعقد ہوگا۔