اسلام آباد(پاکستان نیوز) عسکری اخراجات اور جوہری اسلحے پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی سویڈش ادارے اسٹاک ہولم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری)کی تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت کے پاس پاکستان سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں، جب کہ چین نے جنوری 2023 میں اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 410 سے بڑھا کر جنوری 2024 میں 500 کر لی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران دنیا نے دو جنگیں دیکھی ہیں اور سپری کے ایک تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ بھارت، پاکستان اور چین سمیت جوہری ہتھیاروں سے لیس دنیا کے نو ممالک اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سپری کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے پاس رواں برس جنوری میں 172 جوہری وار ہیڈز تھے جب کہ پاکستان کے پاس یہ تعداد 170 کے قریب ہے۔ بھارت نے 2023 میں اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں تھوڑا اضافہ کیا ہے جبکہ گزشتہ برس کے دوران نئی دہلی اور اسلام آباد نے جدید قسم کے جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کے نظام کو تیار کرنا جاری رکھا۔ ایس آئی پی آر آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا بنیادی مقصد بھارتی جوہری ہتھیاروں کی ڈیٹرنٹ (روک) کے لیے ہے۔ تاہم بھارت کا مقصد اب وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بھارت طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں پر زور دے رہا ہے، جس میں چین کے اندر کسی بھی طرح کے اہداف تک پہنچنے کی صلاحیت بھی شامل ہے۔” سویڈش تھنک ٹینک نے یہ بھی کہا کہ بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا، بیلسٹک میزائلوں پر متعدد وار ہیڈز کی تعیناتی کے حوالے سے، روس اور امریکہ کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ چین کے بارے میں ادارے کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں اپنے جوہری ہتھیاروں کو تیزی سے بڑھا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں جن دیگر ممالک کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے اس میں امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، شمالی کوریا اور اسرائیل کا نام بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس اور امریکہ کے پاس دنیا کے تمام جوہری ہتھیاروں کا 90 فیصد حصہ ہے اور گزشتہ برس تو کئی ممالک نے جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت والے نظام کو تنصیب بھی کیا۔ اس کے مطابق تقریبا 2,100 جوہری وار ہیڈز، جن میں زیادہ تر کا تعلق امریکہ اور روس سے تھا، کو بیلسٹک میزائلوں پر ہائی آپریشنل الرٹ کی حالت میں رکھا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے بھی پہلی بار ممکنہ طور پر کچھ وار ہیڈز کو ہائی آپریشنل الرٹ پر رکھا۔