قارئین کرام! ہر بار اپنا کالم تحریر کرتے وقت ہماری خواہش ہوتی ہے کہ کالم کا آغاز مثبت و امید افزاء امور اور واقعات سے کریں لیکن شو مئی قسمت کہ کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ بادل ناخواستہ ہم رنج والم کے اظہار پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے پی، آزاد کشمیر اور قبائلی علاقہ جات میں کلائوڈ برسٹ کے نتیجے میں جو قیامت برپا ہوئی ہے۔ الامان الحفیظ ہماری ان سطور کے لکھے جانے تک11سو سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں یا لاپتہ ہیں شہر کے شہر ختم ہوگئے۔ بونیر، صوابی، شہروں سمیت بیشتر گائوں صفحہ ہستی سے مٹ جانے کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ لوگ بڑے بڑے پتھروں کے نیچے دبے زندگی ہار گئے۔ مرے پے سو دُرے کے مصداق بارشوں کے سبب سوات سیلاب نے مزید تباہی مچا دی ہے۔ماہرین کے مطابق گلیشیئر پگھلنے اور مزید بارشوں کے سبب قدرتی آفات وقیامت خیزی کا سلسلہ اسلام آباد وپنجاب تک بڑھ سکتا ہے حتیٰ کہ گلیشیرز پگھلنے کے اثرات کراچی، لاہور، ملتان ودیگر علاقوں تک پہنچ سکتے ہیں اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ موسمی تبدیلیوں کے اثرات ساری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتے ہیں تاہم پاکستان میں دنیا کے سب سے زیادہ گلیشیئر ہونے کی وجہ سے سیلاب وقدرتی آفات کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔دیگرممالک واقوام تو گلوبل اثرات اور وارننگ کے حوالے سے منصوبہ بندی واقدامات کر رہے ہیں مگر ہمارے ارباب بست و کشاد سر پہ ڈنڈا پڑے تو جاگنے کے محاورے پر عمل کرتے ہوئے آفت آنے کے بعد جاگنے کے عادی ہیں۔ بادل پھٹنے، گلیشیئرپگھلنے اور سیلاب کی قیامت خیزی، شدید ترین تباہی کے بعد امداد وبحالی کی سرگرمیاں تو جاری ہیں۔ حکومت، ریاست حتیٰ کہ صوبائی حکومت ودیگر متعلقہ تنظیمیں وادارے بحالی، تحفظ اور تعمیر نو نیز متاثرین کی امداد میں فعال ہیں لیکن ہماری اطلاع کے مطابق اس قومی ایشو بلکہ سانحہ کے تناظر میں بھی سیاست کھیلی جارہی ہے۔ ایک جانب تو وفاق وصوبے میں امدادی وبحالی کے کاموں پر الزامات و دعوئوں کا طوفان برپا ہے تو دوسری طرف موسمی تبدیلی کے سبب پیش آمدہ خطرات کے حوالے سے تحفظ کی پلاننگ و ڈیولپمنٹ کے لئے حکومتی ومخالف اشرافیہ کسی نکتہ یا کمیٹی پر ہم خیال بامتفق ہوتے نظر نہیں آتے۔ واضح ہو کہ این ڈی ایم اے نے پنجاب سمیت سارے ملک میں دو خطرناک اسپیلز کی وارننگ دی ہے جو شدید ترین نقصانات کا سبب ہوگا۔
افسوس کی بات ہے کہ سیاسی اشرافیہ وطن کے محافظین، ابلاغ کے ذمہ داران حتیٰ کہ انتظامی ذمہ داران اس قیامت کی گھڑی میں بھی سیاست کے جھگڑوں، مخالفانہ نعرہ بازیوں، دعوئوں، دھمکیوں، سزائوں اور منتقمانہ حربوں کے گزشتہ تین برسوں کے تسلسل میں اور میڈیا سربراہ مقتدرہ وخان کے معاملات وتنازع کو مہمیز کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کی برسلز میں فیلڈ مارشل سے ملاقات، انٹرویو اور بعدازاں کالم نے خصوصاً9مئی کے ناطے سے صدق دل سے معافی، موجودہ نظام کے تسلسل اور حالات میں کسی بھی تبدیلی سے فیلڈ مارشل کے مطمع نظر اور مئوقف پر جہاں ایک طرف الیکٹرونک میڈیا مستقبل کی پیش بینی، تجزیئے اور تبصرے کرتا رہا وہیں سوشل میڈیا خصوصاً خان کے ہمدرد اسٹیبلشمنٹ، حکومتی وعدالتی نظام پر تیر ونشتر چلاتے رہے۔ حقیقت میں اسقدر قیامت خیز اور جان لیوا سانحے کو ثانوی بنا کر اس امر کو ثابت کردیا گیاکہ ہمارے ابلاغ کے ادارے وافراد قومی احساسات و فرائض کے برعکس اپنی ریٹنگ اور سنسنی خیزی کو اولیت دیتے ہیں۔
ہم نے اپنے ایک سابقہ کالم میں اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ موجودہ رجیم طویل مدت اختیار کرے گا الاتاکہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ بوجوہ موجودہ کٹھ پتلی حکومت سے بیزار ہوجائے یا حکومتی بھان متی کنبے میں مفادات کی دراڑیں پڑ جائیں یا پھر تکمیل مدت پر کوئی نیا سربراہ مقتدرہ باگ ڈور سنبھال لے۔ البتہ موجودہ صورتحال اس بات کا عندیہ ہے کہ متذکرہ بالا تمام آپشنز ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہیں۔ موجودہ نام نہاد حکومت کی بقاء تو اسی نکتہ پر ہے کہ خان جب تک پابند سلاسل رہے ان کا تسلسل اسٹیبلشمنٹ کے سہارے رہے۔ دوسری وجہ فیلڈ مارشل کو امریکہ ودیگر عالمی ممالک وقائدین کی سپورٹ کا موجودہ عالمی تناظر اور پاکستان کے معدنی ودیگر وسائل میں دلچسپی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خان اپنی فطرت وشخصیت میں مستحکم اور کسی قسم کی مصالحت یا ڈیل کرنے والا انسان ہرگز نہیں۔9مئی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی معافی کا کوئی سوال عمران خان کے حوالے سے پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس تمامتر صورتحال سے وطن عزیز کی سیاسی صورتحال کی بہتری، حقیقی آزادی، عوام کے حق اور جمہوری علمبرداری محض خواب ہی ہوسکتی ہے۔ بطور پاکستانی ہماری عرض یہی ہے وطن کی بقاء وسالمیت اور عوام کی خوشحالی کی خاطر ذاتیات ومفادات پر مبنی عدم استحکام کی یہ شورش ختم ہونی چاہیئے خصوصاً ایسے حالات میں جب ہمارا اذلی دشمن اپنی عالمی ہزیمت کو مٹانے کے لئے ہر حربہ آزمانے پر تلا ہوا ہے۔ وطن سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ یہی ہے کہ ساری قوم ایک ساتھ متحد رہے۔
٭٭٭٭٭















