”جینے کا حق ”

0
76
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضانقوی کا سلام پہنچے آج ایک ایسے موضوع کی طرف بات ہوگی جو نازک ہے ،حساس ہے اور انسانی احساسات و جذبات کا خیال رکھ کر چھیڑا گیا ہے ،آن لائن اس پر بحث ہورہی ہے جہاں مردوں کو جینے کا حق ہے عورت کو بھی اتنا ہی حق ہے، مشاہدہ ہے اگر کوئی طلاق ہوجائے کوئی بیوہ یا رنڈوہ ہوجائے وہاں اس کی زندگی سمجھا جاتا ہے ختم ہوگئی یا عمر کچھ بڑھ چکی تو بس معاشرہ عجیب طرح سے ایسے لوگوں کو اس طرح کے رویوں سے روشناس کراتا ہے جہاں وہ الامان الحفیظ کا ورد کرتے نظر آتے ہیں افسوس ہم میں دوسروں کا احساس انکا درد سمجھنا اب ختم ہوتا جارہا ہے کیونکہ بہت سی وجوہات ہیں ۔ ہم ایسے معاشرے میں جیتے ہیں جہاں اگر کوئی چالیس سال کی عورت مر جائے تو افسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں دل ٹوٹ گیا وہ تو ابھی چھوٹی تھی ، مگر اگر وہی چالیس سال کی عورت شادی کرے تو ہنسی اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں اتنی بڑی ہو کر اب شادی؟ اگر اس سے کوئی چھوٹا مرد محبت کرے اور شادی کا ارادہ کرے تو اسے طعنہ دیتے ہیں، سمجھاتے ہیں، ناراض ہوتے ہیں تعلق توڑ لیتے ہیں اگر وہ عورت صرف اپنے لیے جینا چاہے، خود کو سنوارے، اپنے دل کو وقت دے تو کہتے ہیں یہ تو اب جوانی کا دکھاوا کر رہی ہے اگر وہ کسی سے محبت کرے تو کہتے ہیں یہ تو دیر سے بالغ ہوئی ہے اور اگر وہ جلدی سو جائے تو کہتے ہیں اب تو یہ بوڑھی ہو گئی ہے ایسا ہے ہمارا پیمانہ جہاں عورت جتنا بھی سنبھل کر جئے جتنا بھی باوقار ہو پھر بھی لوگ اسے کسی نہ کسی زاویے سے توڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں یہی کچھ باتیں ایسے حضرات کو بھی جھیلنا پڑتی ہیں جو رنڈوے ہوگئے انکی بیوی کا انتقال ہوگیا اگر بچے چھوٹے ہوئے انکا خیال کرکے شادی نہ کی تو آگے انکا بڑھاپا خراب ہوتا ہے ،بچے ساتھ نہیں دیتے، معاشرہ اتنا بے حس خود غرض اور سفاک ہوچکا ہے ہم مغربی دنیا کو مورد الزام ٹہراتے تھے آج اپنے یہاں سب کچھ ہورہا ہے اور بس نہیں ایسی ایسی کہانیاں اور انسانی المیے سننے کو ملتے ہیں جہاں سوائے کف افسوس ملنے اور دعائوں کے کچھ نہیں باقی جو کچھ کرسکتے ہیں، ہمت کرکے کوشش کرتے ہیں کہ معاشرہ اپنی سیدھی ڈگر پر چلے اور لوگوں کو جینے دیا جائے ۔ راحت فتح علی صاحب کا کیسا کیسا مذاق اڑایا جاتا ہے گلوکار علی حیدر نے ایک ٹی وی شو میں ان سے متعلق بہت خوبصورت بات کہی کہ انکو جینے دیں وہ جو بھی ہیں انہیں جینے دیا جائے ۔یہ بات کوئی احساس رکھنے والا اچھی تربیت والا بڑا انسان ہی کہہ سکتا ہے، لوگ انکی آواز گانے انکی شخصیت پر مذاق اُڑاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں عجیب لوگ ہیں !
جہاں ایسے مسائل ہیں وہاں نکاح جو کرسکتے ہیں وہ کیوں نہیں کرتے ،اس کی بھی وجوہات ہیں جو مندرجہ زیل تحریر میں کوشش کی گئی بیان کی جائیں اور ان کے سدباب کیلئے دلائل دیئے گئے ہیں، فی زمانہ دیکھا گیا ہے کہ غریب اور تنگدست نکاح نہیں کرتے اور نمود و نمائش کے انتظامات کی وجہ سے اس اہم سنت کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں۔یاد رکھیں نکاح میں سادگی کو اپنانا چاپئے جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے کہ بہترین نکاح وہ ہے جو آسانی سے ہوجائے”(ابوداد جلد2 ح 349)
لہٰذا نکاح میں آسانی کو فروغ دیں اس سنت کو اتن مشکل نہ کریں کہ غریبوں کو اس کی ادائیگی میں مشقت اٹھانی پڑے۔اگر کوئی غریب غیر شادی شدہ ہے تو اسے چاہیئے کہ نکاح کرلے اللہ تعالیٰ نکاح کی برکت سے اس کے رزق میں برکت عطا فرمائے گا انشا اللہ جیسا کہ سورہ نور آیت 32 میں ارشاد ہے کہ اگر وہ تنگدست ہوں تو للہ غنی کردے گا اپنے فضل سے۔
احادیث میں بھی اس بارے میں روایات موجود ہیں،ایک حدیث میں ہے”عورتوں سے نکاح کرو وہ تمہارے لئے (اپنے نصیب سے)مال لاتی ہیں۔ایک شخص نے نبی پاک صلی للہ علیہ وسلم سے فاقہ کی شکایت کی تو نبی پاک صلی للہ علیہ وسلم نے اسے نکاح کرنے کا حکم دیا۔
ایک حدیث ہے کہ “نکاح کے ذریعہ رزق تلاش کرو”
مذکورہ تینوں احادیث کا حوالہ تفسیر درمنثور جلد5 تحت آیت سورہ نور آیت 32
نکاح کو آسان بنانے کے لیے معاشرے میں چند بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ یہاں کچھ اہم اقدامات ہیں جو نکاح کو آسان بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:
1. **جہیز کی لعنت کا خاتمہ**: جہیز کی طلب نکاح کو مشکل بنا دیتی ہے۔ اس رسم کو ترک کرنا اور نکاح کو سادہ اور سنت کے مطابق انجام دینا نکاح کو آسان بنا سکتا ہے۔
2. **سادہ نکاح کا فروغ**: نکاح کی تقریبات کو فضول خرچیوں سے بچا کر سادگی سے انجام دینا، غیر ضروری رسم و رواج سے بچنا اور سنت کے مطابق نکاح کا انعقاد معاشرتی دبا کو کم کرتا ہے۔
3. **جہالت اور غیر ضروری توقعات کا خاتمہ**: نکاح کی بنیادی شرائط میں دینداری اور اخلاقی کردار کو اولین ترجیح دینا چاہیے، بجائے اس کے کہ خاندان، مال، یا طبقاتی فرق کو زیادہ اہمیت دی جائے۔
4. **مہنگے حق مہر سے اجتناب**: حق مہر کو سنت کے مطابق سادہ اور معقول رکھنا چاہیے تاکہ یہ مالی دبا کا باعث نہ بنے۔
5. **شعور و آگاہی**: لوگوں کو دین اسلام کی تعلیمات اور سنت نبوی ۖ کے مطابق نکاح کی اہمیت اور اس کی آسانی کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے۔
6. **خاندانی دبائو میں کمی**: والدین اور خاندان کو چاہیے کہ نکاح کے سلسلے میں بچوں پر غیر ضروری دبائو نہ ڈالیں اور انہیں اپنے فیصلے کرنے میں آزادی دیں۔
7. **رشتوں میں آسانی**: رشتہ تلاش کرنے کے لیے سادہ اور دیندار خاندانوں کو ترجیح دینا اور غیر ضروری مطالبات سے گریز کرنا نکاح کو آسان بنا سکتا ہے۔
اگر ان نکات پر عمل کیا جائے تو معاشرے میں نکاح کو زیادہ سہل اور بابرکت بنایا جا سکتا ہے۔
امید ہے آجکا مقالہ معاشرتی بڑھتے مسائل اور انکے تدارک کیلئے معاون ثابت ہوگا ان شا اللہ
دعا کرتا ہوں اللہ پاک ہر صاحب ایمان کا گھر بسائے اس کو آباد فرمائے اور ازدواجی سکون ہر مرد و زن کو ملے وہ ساتھ زندگی گزاریں اور خوشیوں بھری زندگی سے لطف اندوز ہوکر اس دنیا سے جائیں آمین
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here