نیویارک سٹی کے مئیرل الیکشن میں ظہران ممدانی کی پرائمری میں کامیابی سے روایتی اور قد آور شخصیات کے پاں تلے سے زمین سرک گئی ھے۔ پاکستانی کمیونٹی بٹی اور حسب سابق منتشر ھے۔ لیڈروں کی بھرمار اور سیاسی ویثرن کا فقدان ھے۔ جبکہ بنگلہ دیشی کمئیونٹی مکمل طور یونائیٹڈ اور ممدانی کی حمایتی ھے۔ افریقن، عرب ،ہسپانک کمیونٹی اور خصوصا نوجوان ووٹر ممدانی کا حمایتی نظر آتا ھے۔ ممدانی ایک بہترین چوائس ھیں۔ انہیں بولنے اور نیویارکر کا مقدمہ لڑنے میں دوسرے امیدواروں پر فوقیت حاصل ھے۔ بلا کیمقرر اور نیویارکرز کے مسائل کو سمجھتے ھیں ۔ جو مسلمان ممدانی کے خلاف زہر اگل رہے ھیں۔ یا اسکے مقابلہ میں یہودیوں کے سپورٹر ہیں ۔ وہ دراصل مئیر ایئرک ایڈم کی زبان بول رہے ھیں ۔سابق گورنر کومو کے حمایتیوں کو بھی یاد رہنا چاہئے کہ یہودیوں کو سپورٹ کرنے والے اپنا ہی نقصان کررہیھیں ۔ یہ یہودیوں کو تو سپورٹ کرلیتے ھیں ۔ مگر کوئی مسلمان مقابلہ میں کھڑا ھو۔ تو اسکے اسلام سے کیڑے نکالتے ھیں۔ اور جو فلسطینوں کی مضبوط آواز ھو۔ قاتل نریند مودی کو للکارتا ھو۔ اسے گرفتار کرنے کی بات کرتا ھو۔ فلسطینیوں کے قاتل نیتن یاہو کو فاشسٹ، قاتل اور درندہ کہتا ھو۔ اسکو گرفتار کرنے کی بات کرتا ھو۔اسکے مقابلہ میں مسلم دشمن کو ووٹ کرنا نا مناسب ھے۔ اس وقت کوئی ایسا مسلمان حکمران نہیں ملے گا ۔جو اسرائیل کے خلاف اتنی جرآت اور بہادری سے بات کرتا ھو۔نیتن یاہو، مودی اور ٹرمپ رجیم کو للکارتا ھو۔ کوئی ھے تو سامنے لا جو دھڑلے سے اپنے مسلمان ھونے کا اظہار کرتا ھو۔ جو منافقت نہ کرتا ھو۔جھوٹ نہ بکتا ھو۔ میں نہیں کہتا ھے کہ ممدانی ایک اعلی درجے کا مسلمان ھے۔ مگر غیر مسلم، اسلام دشمن، اور اعلی درجے کے بزدل کلمہ گو مسلمانوں سے بدرجہا بہتر ھے۔ اس لئے ممدانی کو سپورٹ کرنا ھماری اولین ترجیح ھونا چاہئے۔ھم نے دوبئی کے شیوخ ،سعودی حکمرانوں اور عربوں کے مسلمانوں سے سرد روئیے دیکھ لئے۔فلسطینوں اور کشمیریوں سے ہمدردی دیکھ لی۔اگر کوئی نوجوان علی الاعلان فلسطین کے ساتھ کھڑا ھے۔ تو وہ ان منافقوں اور دو کالے چہروں سے بہتر ھے۔ جنکا اندر کچھ اور باہر کچھ اور ھے۔ اگر آج نیویارک سٹی کا مسلم ووٹر ممدانی کے ساتھ کھڑا نہیں ھوتا تو سمجھ لیجئے ھماری ٹرین چھوٹ سکتی ھے۔اسلئے اس گولڈن موقع کو کھونا نہیں چاہئے۔ ڈیموکریٹس، ریپبلکنز، فاشسٹ، ذاہنسٹ ،ہندو، منسٹری آف چرچ سبھی ممدانی کے خلاف یکجا ھوچکے ھیں۔ مسلم ووٹرز نے ڈیموکریٹس کے مقابلہ میں ٹرمپ کو ووٹ دے کر دیکھ لیا۔ ٹرمپ کی پالیسیز وہی ھیں جو ڈیموکریٹس کی تھیں۔ سوچ وہی ھے۔ تو کیوں نہ ھم منافق، جھوٹے ،مسلم دشمن سیاستدانوں کو چھوڑ کر ایک نوجوان مسلمان کا انتخاب کریں۔ممدانی نے اس وقت پورے امریکہ کی سیاست میں ہلچل پیدا کردی ہے۔تمام مسلم کمئونٹیز کو اسے کھل کر سپورٹ کرنا چاہئے۔ ثقلین امام نے موجودہ پرائمری الیکشن پر بہترین تجزیہ کیا ھے کہ انکا کہنا ھے کہ ظہران ممدانی کی 2025 کے نیویارک مئیرل پرائمری الیکشن میں فتح کو نہ تو مخض شناختی سیاست قرار دیا جاسکتا ھے اور نہ ہی یہ صرف مسلم ووٹ کی بنیاد پر ھوئی ھے۔ نیویارک کی آبادی میں مسلمان صرف بارہ فیصد ہیں۔جو مختلف شناختوں میںبٹے ھوئے ھیں۔ اگر پوری مسلم آبادی بھی اسے ووٹ دیتی ھے ۔ تب بھی ممدانی فرسٹ چوائس ووٹ حاصل نہ کر پائے جو کل ووٹوں کا 43 فیصد بنتے ہیں۔ظہران ممدانی نے ڈیموکریٹ مئیر پرائمری میں 4,32,305 ووٹ حاصل کئے ھیں ۔جو کل ووٹوں کا تنتالیس فیصد بنتے ھیں۔ ان کے بعد سابق گورنر انڈریو کومو نے 3,61,840 ووٹ حاصل کئے ھیں جو 36.42 فیصد بنتے ھیں۔انڈریو کومو نیویارک کے سابق گورنر رہے ھیں ۔ سابق گر رنر کا کہنا ھے کہ موجودہ مئیر کو مئیرل ریس چھوڑ دینی چاہئے۔ جس پر مئیر ائیرک ایڈم نے سابق گورنر کو آڑے ہاتھوں لیا ھے۔ دونوں امیدوار کرپٹ ھیں ۔ ائیر ایدم کو صدر نے پارڈنکیا ھے اور انہیں ریپبلکن کی حمایت بھی حاصل ھے۔ کومو پرائمری ہار چکے ھیں لیکن ریس میں موجود ھیں ۔ کومو کو کرپشن،سیکچوئل ہراسمنٹ جیسے کئی مقدمات کا سامنا رہا اسی بنا پر انہیں مستعفی ھونا پڑا۔ ان دو بڑے امیدواروں کے علاوہ بریڈ لینڈر کو 1,12,349 ووٹ (11.31 فیصد) ملے، جبکہ ایڈرین ایڈمز نے 40,953 ووٹ (4.12 فیصد) حاصل کیے۔ دیگر چھوٹے امیدواروں نے مجموعی طور پر 46,099 ووٹ لیے، جو 4.64 فیصد بنتے ہیں۔ کل 9,93,546 ووٹ ڈالے گئے۔ ممدانی کو کومو پر 70,000 سے زائد ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی، جو اربن ڈیموکریٹک ووٹرز کے رجحان میں ترقی پسند اور جنگ مخالف سمت کا واضح اشارہ ہے۔ ظہران ممدانی کی مہم امریکی سیاست میں اخلاقی اور سیاسی بغاوت کا پہلا کامیاب اور کھل کے ایک اظہار ہے، جس میں بائیں بازو سے وابستہ یوتھ کی ایک بڑی مگر خاموش کلاس ہے، جو طویل عرصے سے ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر دبی ہوئی تھی، خاص طور پر اسرائیل اور غزہ سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کے تناظر میں۔اس یوتھ نے امریکی یونیورسٹیوں میں غزہ کی حمایت کرنے پر سٹوڈنٹس کے خلاف پولیس کی ظالمانہ کارروائیاں دیکھیں۔ آخر یوتھ کا غصہ تو نکلنا تھا۔ ممدانی، جو ایک ڈیموکریٹک پارٹی میں سوشلسٹ دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی فوجی اقدامات کے دیرینہ ناقد ہیں، انھوں نے ایک ایسا منشور بھی پیش کیا جس میں امریکی معاشرے میں معاشی انصاف کو غزہ پر بمباری کے خلاف ایک بے لاگ اخلاقی مقف کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ دی گارڈین نے 22 جون کی اپنی رپورٹ میں اس فتح کو ایک حیران کن تبدیلی قرار دیا جو اسرائیل کے بارے میں ڈیموکریٹس کے اندر پائے جانے والے اتفاق میں گہری دراڑوں کو ظاہر کرتی ہے۔ ظہران ممدانی کوئی غیر سنجیدہ یا حاشیے کا امیدوار نہیں تھا، انہوں نے ہزاروں والنٹئیرز پر مشتمل ایک منظم گراس روٹس مہم کی قیادت کی، جو نیویارک کے شہریوں کے لیے سستی رہائش، صحت کی سہولت، اور جنگ مخالف اصولوں پر مبنی ایک مربوط سیاسی وژن لے کر چلی۔ ان کے ساتھ جہاں نیویارک کی مختلف اقلیتوں کے نوجوان شامل تھے وہیں یونیورسٹیوں، کالجوں اور ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس کے طلبا بھی شامل تھے۔ یہ یوتھ کی اینٹی اسٹیبلشمبٹ لہر اٹھی ہے۔ نیویارک کے میئر کے حالیہ انتخابات پر سیاسی تجزیہ کاروں نے واضح کیا ہے کہ غزہ کے بارے میں ظہران ممدانی کا مقف ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ تھا۔ ویب سائٹ ووکس ڈاٹ کام نے اپنی 25 جون 2025 کی رپورٹ میں لکھا کہ ممدانی کی انتخابی مہم نے رہائش اور صحت جیسے عوامی مسائل پر بائیں بازو کی مقبول سیاست کو غزہ کی جنگ کو اس کے اصل نام سے پکارنے کی جرات کے ساتھ جوڑ دیا، اور یہی وہ بات تھی جس نے انھیں باقی امیدواروں سے ممتاز کر دیا۔ سیاسی تجزیہ کار رولا جبریئل نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ غزہ کی جنگ اب صرف خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہیں رہییہ اب نوجوان امریکی ووٹرز، جس میں یہودی نوجوان بھی شامل ہیں، ان سب کے لیے ایک اخلاقی تقسیم کی لکیر بن چکی ہے۔ یہ نسلی، نسلیاتی اور نسلی حدوں سے ماورا ردعملجس میں ترقی پسند یہودی، اقلیتی گروہ، نوجوان ووٹرز، مسلمان اور ورکنگ کلاس لاطینی شامل ہیںممدانی کے حامی اتحاد کا بنیادی حصہ ہیں۔ بائی بازو کے معروف میگزین جیکوبن نے لکھا: اگر ان کے وولنٹیئرز نہ ہوتے تو ممدانی صرف ایک اچھی کہانی ہوتے، لیکن ان ہزاروں وولنٹیئرز کے ساتھ وہ ایک سنجیدہ امیدوار بنے۔ ممدانی کا پیغام ان ووٹرز میں خاص طور پر مقبول ہوا جو غزہ پر دونوں جماعتوں کی خاموشی سے بددل ہو چکے تھے۔ خود ممدانی نے کہا: جب میں نے فلسطینی انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کی، تو یہ اس یقین کے تحت کیا کہ انصاف اگر سب کے لیے نہ ہو تو وہ انصاف نہیں رہتا۔ اس قسم کی اخلاقی کلیریٹی، خاص طور پر ایک ایسے شہر میں جو طویل عرصے سے فیمعکیٹک اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ تسلط رہا ہے، عوام کے لیے نہایت پرکشش ثابت ہوئی۔ یہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر بڑھتی ہوئی سینٹرسٹس اور لیفٹسٹس کے درمیان دراڑوں کا اظہار بھی ہے، جہاں اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت کو اب نوجوان اور متنوع ووٹرز کی جانب سے کھلے عام چیلنج کیا جا رہا ہے۔ ایک بات مت بھولیں کہ نیویارک امریکہ کی یہودی آبادی کا بہت مضبوط شہر بھی ہے مگر شہر کے باشندوں نے ہر طاقتور کے خلاف ووٹ دیا، یہاں تک کے یہودیوں کی لیفٹسٹ یوتھ نے بھی ممدانی کو ووٹ دیا۔ دی اٹلانٹک میں لکھتے ہوئے پیٹر بینارٹ نے نوٹ کیا کہ ممڈانی کی فتح صرف غزہ تک محدود نہیں تھییہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر اسرائیل پر اختلافِ رائے کا گلا گھونٹنے کے خلاف ایک کامیاب بغاوت تھی۔ اور یہ شاید صرف شروعات ہو۔ منیپولس، شکاگو، سان فرانسسکو، اور ڈیربورن جیسے شہروں میں بھی اسی طرح کی سیاسی لہر دیکھنے کو مل رہی ہیجس میں اسٹیبلشمنٹ سیاست سے بیزاری اور ان امیدواروں کے لیے جوش پایا جاتا ہے جو غزہ کے معاملے پر سچ اور زور سے بولنے کو تیار ہوں۔ نیویارک ٹائمز کے کالم نگار جمیل بویی نے ان الیہ بز سے یہ نتیجہ اخذ کیا: اگر آپ 2025 کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو دیکھیں کہ نیویارک میں کیا ہوا۔ ڈیموکریٹس اگر اس تبدیلی کو نظرانداز کریں گے، تو اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔ ممدانی کی فتح ایک انتباہ بھی ہے اور ایک مثال بھی۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ فلسطینی حقوق کے لیے حمایت اب ترقی پسندوں کے لیے سیاسی بوجھ نہیں رہیبلکہ مناسب قیادت کے تحت یہ ایک کامیاب انتخابی حکمت عملی بن سکتی ہے۔ شاید یہ الیکشنز امریکہ کے قومی رجحان کو ظاہر نہ کرتے ہوں لیکن یہ اتنا پیغام ضرور دیتے ہیں کہ اگر ایک طرف مغربی سوسائیٹیز میں قوم پرستی اور اینٹی امیگرنٹس رجعت پسندی بڑھ رہے ہیں تو وہیں کچھ جگہوں پر بائیں بازو کے ایسے رجحانات بھی تقویت پکڑ رہے ہیں جو سب کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں ایک بات ضمنا کہی جا سکتی ہے کچھ پاکستانی حضرات لندن کے صادق اور نیویارک کے ممدانی کو ایک جیسا سمجھ رہے ہیں۔ مگر جہاں لندن کے میئر صادق لیبر پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کا لیڈر ہے، ممدانی ڈیموکریٹس کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر ہے۔ اور یہ بہت بڑا فرق ہے۔ممدانی کی جیت ایک خاموش اور ناقابل تسخیر انقلاب کی دستک ھے۔اس انقلاب کی گونج پاکستانی کمیونٹی کے کانوں نہیں پہنچ پائی۔ہمارے حال پر یہی مصرع فٹ آتا ھے کہ ھمیشہ دیر کردیتا ھوں میں۔
٭٭٭











