آرمی چیف یا اتفاق فائونڈری کی تعیناتی!!!

0
126
جاوید رانا

پاکستان غالباً دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے حوالے سے”اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی” کا محاورہ صادق آتا ہے۔ سیاست، صحافت، تعلیم و تنظیم، اسپورٹس انتظامی و دیگر شعبوں میں توبد عملیاں دھوکہ بازیاں، دشمنانہ و متعصبانہ حرکات فرد سے لے کر گروہوں، معاشرے تک طویل عرصے سے جاری و ساری ہیں، اس کیلئے جان سے کھیلنے سے بھی بعید نہیں کیا جاتا رہا ہے، دُکھ یہ ہے کہ اب اہم ترین حساس و ریاستی امور میں بھی گند پھیلانے اور گند اُچھالنے سے گریز نہیں کیا جاتا ہے۔ ہم جیسے صحافیوں، کالم نگاروں کا حال یہ ہے کہ احمد ندیم قاسمی مرحوم کے شعر ”دل گیا تھا تویہ آنکھی بھی کوئی لے جاتا، میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں،، کی تصویر بنے نوحہ گری کرتے اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے عرضداشتیں کرتے رہتے ہیں۔ نتیجہ ڈھاک کے تین پات کے سواء کچھ بھی نہیں۔ ایک برس ہونے کو آیا ہے ملک کا سیاسی منظر نامہ جن مراحل سے گزر رہاہے وہ کسی بھی طرح نہ ملک و قوم کے حق میں جاتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی عالمی منظر نامے میں ہمارے مثبت تاثر کے مظہر ہیں۔ اقتدار و اغراض کی رسہ کشی میں ہر طرح کے نقصانات حتیٰ کہ بربریت و جانی نقصان کے مظاہر سے حالات کی بدنمائی مزید سامنے آئی ہے۔ عدم اعتماد کے ڈرامے سے شروع ہونیوالا کھیل امریکی سازش، عوامی احتجاج و رد عمل، صحافتی موشگافیوں سے ہوتا ہوا اب آرمی چیف کی تعیناتی کے قضیئے تک پہنچ چکا ہے۔ اس دوران سیاسی، معاشی و انتظامی طور پر جو بحرانی کیفیت سامنے آئی اور قوم جس حالات سے گزر رہی ہے وہ واضح ہے لیکن ارشد شریف کی شہادت، کپتان پر قاتلانہ حملے سے جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ نہ صرف ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ مزید انتشار و خلفشار کا باعث بن چکی ہے۔ سونے پہ سہاگہ، سیاسی محاذ آرائی اب آرمی چیف کی تعیناتی کے ایشو اور پسند و ناپسند کے بھنور میں پھنس چکی ہے۔
سیاسی منافرت کا بُھوت اب ان حدوں پر جا چکا ہے جہاں مخالفت دشمنی میں بدل چکی ہے اور اپنی برتری و تسلسل کیلئے ایسے اقدامات سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے جو انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ قارئین اگر صرف گزشتہ ہفتے کے واقعات پر ہی نظر ڈالیں تو یہ حقیقت کُھل کر سامنے آجاتی ہے ارشد شریف کی شہادت کے حوالے سے شہید پر تشدد کئے جانے، ناخن نکالے جانے اور متعلقہ رپورٹ کے عمران مخالف اینکر کامران شاہد کے ذریعے منظر عام پر لائے جانے اور شہید کی ماں کی درخواست کے باوجود انہیں نہ دیئے جانے کو کیا نام دیا جائے۔ حکومتی تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کی کینیا کی پولیس کے تشدد پر رائے، اس کے برعکس کینیا کے پولیس سربراہ کی ناخنوں اور جسم پر نشانات کے حوالے سے فورنزک کا جواز اس معا ملے کو مزید اُلجھا دیا ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ پر سرجن جنرل کے کمنٹس واضح کر رہے ہیں کہ ارشد شہید کے جسم، بازو، کھوپڑی پر تشدد کے واضح نشانات تھے۔ اس تمام تضاد سے ارشد شہید کے گھر والوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔ا ُدھر حکومت خصوصاً وزیر داخلہ ڈنگ ٹپائو کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔
دوسری جانب کپتان پر قاتلانہ حملے کے تناظر میں حکومتی ذمہ داران بالخصوص رانا ثناء اللہ و مریم اورنگزیب اسے ڈرامہ قرار دینے پر بضد ہیں۔ ان آنکھ کے اندھوں اور عقل کے کوروں کو یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ ڈرامہ کرنے کیلئے عمران کو زخمی ہونے اور معظم کو مروانے کی کیا ضرورت تھی۔ کپتان نے صحیح کیا کہ اپنے زخموں کی ویڈیو بنا کر انسانیت سے دور فریبیوں کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ معظم شہید کی پوسٹمارٹم رپورٹ میں بڑی گن کے استعمال کی تصدیق نے امپورٹڈ حکمرانوں کے اس مؤقف کو بھی غلط ثابت کیا کہ کپتان پر حملہ اکیلے نوید نامی مبینہ مجرم نے کیا تھا تاہم کپتان کا مؤقف درست نکلا کہ اس پر دو اطراف سے حملہ کیا گیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سازشی طور پر حکمرانی کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان عوامی مقبولیت اور عوامی حمایت اپنے مضبوط مؤقف کی بدولت ان کیلئے نہ صرف موجودہ صورتحال بلکہ ان کے مستقبل کیلئے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فوری انتخاب کرانے سے گریزاں ہیں بلکہ منافرت کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ وزیر آباد حملے کی ایف آئی آر بھی عمران کی طرف سے نہیں درج ہونے دی، کپتان کو اس کیلئے بھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔
کہنے کو تو بقول سراج الحق یہ تیرہ حکمرانوں یا تیرہ وزرائے اعظم کی حکومت ہے کہ شہباز شریف کے علاوہ ہر جماعت کے سربراہ سے مشورہ کئے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو شہباز شریف بھی وزیراعظم نہیں، ڈیفیکٹو وزیراعظم بڑے میاں صاحب ہیں جو لندن میں بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ اور چھوٹے میاں ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ منافقت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ نام نہاد وزراء اندر بیٹھ کر ذاتی مخالفت کے باوجود ڈیفیکٹو دارالحکومت لندن کے فیصلوں پر چُوں بھی نہیں کرتے اورآمناً صدقناً عمل کرتے ہیں۔ تازہ ترین معاملہ آرمی چیف کی تعیناتی ہے۔ چھوٹے میاں لائو لشکر لے کر لندن پہنچے کہ مشورے کے نام پر فیصلے کے خواہشمند ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں افواج کے سربراہ کا فیصلہ سربراہ حکومت کا اختیار ہوتا ہے اور سینیارٹی و میرٹ کے مطابق فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس تعیناتی کا فیصلہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں مذاق بنتا ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ لیں کہ وزیراعظم نے مروجہ طریقے کے مطابق نہیں، فیصلہ بڑے بھائی سے ہدایت ملنے پر کرنا ہے گویا آرمی چیف کی نہیں اتفاق فائونڈری کے سربراہ کی تقرری کی جانی ہو۔ ویسے بھی بڑے میاں صاحب 5 آرمی چیفس کا اپائٹمنٹ اور بعد ازاں ان سے جھگڑا کرنے و ہزیمت کا تجربہ کر چکے ہیں تو اب وہ چھوٹے میاں صاحب کو اس تجربے کا مزہ چکھانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ اس حقیقت کی غماز ہے کہ جو بھی سربراہ اپنی پسند پر اور حقیقی میرٹ سے ہٹ کر فوجی سربراہ کو لایا ہے، اسے تلخ حقائق و نتائج حتیٰ کہ موت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، وجہ یہ کہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ان سیاسی حکمرانوں کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کاسہارا چاہئے ہوتا ہے۔ کیا ایسا وقت آسکتا ہے کہ سیاست اور ریاست کے امور میرٹ اور عوامی اُمنگوں کے مطابق ہوں ، یا یہ ایک خواب ہی رہے گا؟۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here