صنف نازک اور ان کی صحت!!!

0
224
رعنا کوثر
رعنا کوثر

خواتین کو اللہ نے صرف اس لیے پیدا نہیں کیا کے وہ اپنے شوہر اپنے بچوں اور اپنے والدین کا خیال رکھیں۔ عورت کی پیدائش کا مقصد یہ ضرور ہے کے وہ اردگرد رہنے والوں کو سکھ چین اور سکون کی زندگی دے۔ ایک عورت سے ہی ایک گھر بنتا ہے نئی نسل پروان چڑھتی ہے۔ مگر یہ عورت جو دوسروں کی زندگی میں اجالا کرتی ہے اس عورت کو اکثر گھرانوں میں معاشرے میں اور خاندان میں ہر شخص یہ کہہ کر تعریف تو کرتا ہے۔ کے بہت محنتی ہے کیا گھر سنوارا ہے۔ بچوں کی کیسی اچھی تربیت کی ہے اور اگر جاب کرتی ہو تو اور بھی سب کے لئے قابل تعریف بات ہوتی ہے کہ کیسے گھر کے بچوں کو لے کر چل رہی ہے۔ نوکری بھی کرتی ہے اور سگھڑ بھی ہے۔ سمجھ بوجھ بھی ہے مگر بڑی عجیب بات ہے۔کہ وہ عورت جو سب لوگوں کو لے کر سنبھال کر چل رہی ہوتی ہے، ایسی عورت کو اپنی صحت کا خیال کم ہی آتا ہے اور اس کا خاندان اس کا معاشرہ کوئی بھی اس کی صحت کا خیال نہیں کرتا ہے۔ سب کو ایک کام کرتی ہوئی تیز طرار پتھریتلی عورت چاہئے ہوتی ہے سب خوش ہوتے ہیں اس کی طاقت پر فخر کرتے ہیں لیکن کوئی احساس دلانے والا نہیں ہوتا کے اپنا خیال رکھو اس لئے اپنا خیال خود ہی رکھنا ہوتا ہے میں عورتوں سے کہوں گی اپنا خیال خود دیکھیں۔ ہڈیوں کا خیال رکھیں نظر کا خیال رکھیں نظام ہضم کا خیال رکھیں۔ یہ سب اچھی عادتیں آپ کے لاابالی پن کو ختم کرتی ہیں اور آئندہ عمر میں بھی آپ کو صحت مند رکھتی ہیں۔ شادی کے بعد بھی خواتین اپنے آپ کو یہ سوچ کر نظرانداز کر دیتی ہیں کے ابھی تو ہم جوان ہیں بچے ہوتے ہی ہر طرح کے کام کے لئے کھڑی ہوجاتی ہیں بڑے بوڑھوں کی نصحیتوں کو نہیں سختی ہیں۔اس حد تک محنت مشقت کرتی ہیں کے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو جاتی ہیں یا بہت موٹی ہوجاتی ہیں۔ اپنے بچوں کی صحت اور شوہر کی صحت کا اتنا خیال کرتی ہیں کے اپنی صحت گرا لیتی ہیں۔ اس لئے ہر بچے کے بعد اپنی بھی طرف توجہ کریں۔ اچھا کھائیں کم سوچیں کچھ معاملات اللہ پر بھی چھوڑ دیں جب اس نے پیدا کیا ہے تو وہ بچوں کا خیال بھی کریگا۔ اگر کہیں کوئی کمزوری محسوس ہو۔ سر میں درد یا اور کوئی پھوڑا پھنسی ڈاکٹر کو دکھائیں ٹالیں نہیں۔ ہم ہر وقت دوسروں سے حقوق مانگتے رہتے ہیں مگر خود اپنے ہی حقوق سے غافل نہیں۔ پہلے ہم اپنا خیال خود تو رکھیں پھر دوسروں سے امید رکھیں۔ ہماری جسمانی صحت کے ساتھ ہماری ذہنی صحت بھی بہت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو منفی خیالات سے بچائیں۔ اپنے اوپر ترس بھی نہ کھائیں۔ ہر طرح کے ذہنی دبائو کا علاج اللہ پر یقین ہے بہت زیادہ سوچنے سے بھی ہر طرح کی جسمانی بیماری شروع ہوجاتی ہے۔ اور آخر میں یہ کہوں گی کے عورتوں کے بارے میں بہت کم ڈاکٹر سنجیدہ ہوتے ہیں۔ جب وہ کسی علاج کے لئے کسی ڈاکٹر سے رجوع کرتی ہیں تو وہ بہت عام سے مشوروں سے نواز دیتے ہیں۔ جیسے وہ موٹی ہو رہی ہوں تو کم کھانے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے کوئی ان کے ہارمون وغیرہ چیک نہیں کرتا۔ اگر وہ بچہ چاہ رہی ہوں تو اصل علاج کی طرف بہت کم ڈاکٹر آتے ہیں۔ دوائیاں فوراً شروع کردی جاتی ہیں بچہ ہونے کے وقت ذرا بھی کوئی تاخیر ہو فوراً آپریشن کردیا جاتا ہے۔ اگر دوچار دفعہ درد کی شکایت کردی تو وہم کا شکار ہیں کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے یا پھر درد کی دوائیں دے کر علاج کر دیا جاتا ہے۔ غرض کے عورت کے علاج اس کی صحت کے بارے میں بہت ہی کم سوچا جاتا ہے۔
اس لئے میں یہی کہوں گی کے عورت جہاں اپنے دوسرے حقوق کی بات کرتی ہے وہیں اسے اپنے ڈاکٹر سے بھی سوال جواب کرنا آنا چاہئے۔ تاکے وہ اپنی صحت کو محض دوسروں کے تجربے کی نذر نہ کرے۔ ڈاکٹر کو پوری بات بتائیں اور اگر وہ پوری بات نہ سنے تو اس کو اس طرح متوجہ کریں۔ کیونکہ عورت کی صحت پر تو ڈاکٹر بھی توبہ نہیں دیتے ہیں۔ ایک چلتی پھرتی عورت ہمیشہ سب کو صحت مند ہی لگتی ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here