ترجمان یا بدزبان!!!

0
135
ماجد جرال
ماجد جرال

ہر گزرتے دن کیساتھ پاکستانی معاشرے یا دیار غیر میں آباد پاکستانی کمیونٹی میں صحافتی اقدار پامال ہونے کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے؟ کیا صحافیوں کو آنے والے دنوں میں معاشرے کے ایک باعزت مقام سے اتار کر کسی راہگیری پیشے کے بدنام محلے کی تاریک گلیوں میں تو نہیں دھکیل دیا جائے گا؟ گزشتہ تین چار دنوں سے میرے ذہن میں یہ سوال بار بار گھوم رہے ہیں۔ ان سوالوں نے ایک ایسے واقعے کے بعد جنم لیا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل کے دورہ امریکہ کے موقع پر نیویارک میں پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنماؤں کی جانب سے استقبالیے دیے گئے۔ ہفتے کے روز صدر پاکستان تحریک انصاف آزادکشمیر باب چوہدری ظہور پنیام کے گھر ہونے والی تقریب میں یہ واقعہ پیش آیا، جب اپنی تلخ زبان کے حوالے سے مشہور شہباز گل نے گزشتہ کئی برسوں سے جنگ گروپ کے ساتھ وابستہ سینئر صحافی عظیم ایم میاں کے ساتھ ان کے سوال کے بعد تو جواب دیتے ہوئے الزام تراشی کے ساتھ ساتھ ایک صحافی کے لیے غیر مناسب الفاظ کا استعمال بھی کیا۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے مگر پھر بھی وہ یہ الفاظ اپنے سیاسی حریف نون لیگ کے لیے استعمال کرتے تو کوئی حرج نہیں تھا کیونکہ پاکستان میں آج کل سیاست اپنے اسی روپ میں پروان چڑھ رہی ہے، یعنی سیاسی مخالفین نے اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ مگر یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، جس میں پاکستان تحریک انصاف، ن لیگ یا دیگر سیاسی جماعتوں نے کسی صحافی کو مخالف سیاسی جماعت کا آلہ کار کہا ہو۔ سینئر صحافی عظیم میاں نے سوال اُٹھایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان کیوں اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں، خصوصا شہباز گل اور فردوس عاشق عوان جو کسی زمانے میں مہذب شمار ہونے والے سمندر پار پاکستانیوں کا حصہ تھے، وہ بھی پاکستان جا کر اس پر رویے کا شکار کیوں ہو گئے؟
شہباز گل نے اس سوال کو اپنی ذات پر گہری چوٹ تصور کیا، جواب میں ایک صحافی کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنا یا صحافی کو صرف سوال کی بنیاد پر کسی جماعت کا آلہ کار بنا دینا کسی بھی بطور ترجمان انہیں زیب نہیں دیتا تھا۔ عموما صحافی وہی سوال اٹھاتے ہیں جو معاشرے کے نیوٹرل طبقے کے ذہن کی عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستان میں یا دیار غیر میں بے شمار ایسے افراد ہیں جو پاکستان تحریک انصاف کے ترجمانوں کے انداز گفتگو کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے سوالات اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہو سکتے ہیں مگر کسی صحافی کے سوال کو کسی بھی سیاسی جماعت کا لبادہ پہنا دینے جیسے معجزات یقین جانیے اب صرف پاکستان میں ہی کثرت سے ملیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنماؤں و کارکنان کا موقف اس واقعے کے بعد اگرچہ یہ تھا کہ کسی صحافی کو بھی اس بات سے گریز کرنا چاہیے کہ وہ کسی کی ذات کو براہ راست نشانہ بنائے، کارکردگی پر سوال کرنے میں حرج نہیں مگر صحافی کو اپنے سوال میں ایسا تاثر نہیں دینا چاہیے کہ جیسے وہ فیصلہ پہلے کر چکا ہے اور سوال کا جواب بعد میں چاہ رہا ہے۔ صحافتی اعتبار سے یہ موقف درست مانا جاتا ہے مگر اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہ کیجئے کہ پاکستان یا دیار غیر میں حکومتی کارکردگی اور ترجمان کے انداز گفتگو کے باعث لوگ ان کی ذات کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ یہی عظیم ایم میاں کے سوال میں جھلکنے والی وہ تلخ حقیقت تھی جس کا شہباز گل برا منا گئے۔ سخت سوالات کو ڈیل کرنے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008 کے بعد بننے والی حکومت ہمارے لیے ایک بہترین مثال کا کام دیتی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کم از کم میرے صحافتی دور میں ایک ایسی حکومت تھی جن کو سب سے زیادہ میڈیا ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا جنہیں سب سے زیادہ میڈیا کے سخت سوالات درپیش تھے۔ مگر یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تربیت کا شاید اثر تھا کہ کسی حکومتی وزیر یا ترجمان نے کبھی کسی صحافی کو اس کے سوال پر یو براہ راست کسی حریف سیاسی جماعت سے منسوب کیا اور نہ ہی تضحیک کا نشانہ بنایا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو درپیش چیلنجز کی وجوہات جو بھی تھیں مگر انہیں اس بات کا احساس ضرور تھا کہ یہ صحافی کی زبان سے نکلنے والا سوال عوامی جذبات کی عکاسی کررہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی حقیقت میں دیکھی جائے تو عوام ان کے دعووں کو مزید برداشت کرنے کے حق میں نہیں اور موجودہ حکومتی ترجمانوں و وزرا کے انداز گفتگو کو پاکستان میں اکثریت اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار قرار دیتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اب اس بات پر اگر آپ صحافی کمیونٹی پر اپنا غصہ نکالیں گے تو درحقیقت آپ آئینہ دیکھ کر اپنا ہی منہ چڑا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ان رویوں کو تقویت میڈیا کے باہمی اتحاد و اتفاق کے فقدان کی وجہ سے بھی ملی ہے، صحافتی کمیونٹی کو بھی کیا اب سنجیدہ ہوکر سوچنے کی ضرورت نہیں کہ مستقبل میں کس طرح صحافتی برادری کو ایسے الزامات سے بچایا جا سکتا ہے، وگرنہ واقعی سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کی عدم برداشت اور سوالات کو جواب کرنے کی ناتجربہ کاری صحافت کو معاشرے کے ایک باعزت مقام سے اتار کر کسی راہگیری پیشے کے بدنام محلے کی تاریک گلیوں میں دھکیل دے گئی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here