امریکہ میں صحافی برادری

0
273
مجیب ایس لودھی

قدیم چین کی کہانی سے ایک روایت ہے کہ دو دوست تھے ایک بڑا ہو کر مفلس رہا اور دوسرا بڑا ہو کر دیوتا بن گیا عرصہ بعد ملے تو مفلس دوست سارا وقت اپنی غربت کا رونا روتارہا ، دیوتا دوست سے نہ رہا گیا ، اس نے سڑک پر پڑی اینٹ کو اُنگلی کے اشارے سے سونے کی اینٹ بنا دیالیکن مفلس دوست کو پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو دیوتا دوست نے اینٹ کو بڑا سونے کے سائز کا بنا دیا لیکن مفلس دوست کی پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو دیوتا دوست نے مفلس دوست سے وجہ پوچھی کہ کیا چاہتے ہو تو مفلس دوست نے کہا تمہاری ”انگلی” ، یہی حال ہماری سوسائٹی کا ہے اگر کوئی شخص اپنی محنت سے بڑا امیر بن جائے تو اکثر قریب کے لوگ اس سے حسد و نفرت کرتے ہیں ، اس کی خوبیوں کی تعریف نہیں کرتے ، پاکستان میں اس وقت ہر شخص امیر بننے کی دوڑ میں ہے خواہ جائز طریقہ ہو یا ناجائز طریقہ کیونکہ ناجائز طریقہ آج کے دور میں زیادہ قابل تعریف سمجھا جاتا ہے اور اسے اس شخص کی ”سمارٹنس” یا خوبی قرار دی جاتی ہے کہ فلاں شخص نے فلاں کو کیسے بیوقوف بنا دیا جبکہ یہ نہیں سوچتے کہ آپ نے فلاں شخص کو بیوقوف بنا کر کس طرح ہزاروں ڈالر بنا لیے جوکہ ناجائز ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ”یہ نہ سوچو کہ تم نے فلاں شخص کو کس طرح بیوقوف بنایا بلکہ دوسری جانب دیکھو کہ اس شخص نے آپ پر کتنا اعتماد کیا تھا ”آج کا معاشرہ اتنا خراب ہو چکا ہے کہ لوگ سرے عام جھوٹ ، فریب کہتے ہیں اور انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ بُرا کام کررہے ہیں بلکہ فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں شخص کو کس طرح بیوقوف بنایا ، ایک وقت تھا کہ چھوٹا بڑے کا احترام کرتا تھا ۔بڑا خواہ کتنا بھی غریب ہو اور چھوٹا خواہ کتنا بھی امیر ہو وہ بڑے کے احترام کو اپنے او پر لازمی قرار دیتا تھا ، گزشتہ دنوں ایک واقعہ کا تجربہ کچھ اس طرح ہوا کہ ہمارے انتہائی معزز کمیونٹی رہنما چودھریظہور کی رہائش گاہ پر پاکستان سے تشریف لائے وزیراعظم کے مشیر شہباز گل کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام تھا ، شہباز گل نے اپنے خطاب کے بعد سوال جواب کی نشست رکھی ،نا چیز نے بھی جو سوال بنا کیا لیکن معاملہ اس وقت خراب ہوا جب ہمارے سینئر صحافی میاں عظیم کے ایک ”ترش” سوال کے جواب میں شہباز گل نے انتہائی غیر مہذب جواب دیا جس پر مجھ سمیت تمام مقامی صحافیوں نے تقریب کا بائیکاٹ کر دیا اور باہر چلے گئے ، سوچتا ہوں کہ کیا وقت آگیا ہے کہ ایک نوجوان نے ایک بزرگ صحافی کو کیسے غیر مہذب الفاظ و انداز میں جواب دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول بھی استعمال کیا کہ جو جس انداز میں سوال کرے اُسے اُسی انداز میں جواب دو ، مجھے کسی بھی دینی کتاب میں اس کا حوالہ نظر نہیں آیا کیونکہ ہمارا دین تو بڑوں کا احترام سکھاتا ہے ، افسوس یہ بھی کہ ان کی پارٹی کے افراد بھی شہباز گل کیلئے تالیاں بجاتے نظر آئے جنہیں اپنے مقامی سنیئر صحافی اور تمام صحافی برادری کی عزت کا بھی خیال نہیں آیا ، میں امجد نواز کی رہائش گاہ پر اپنے چند دوستوں کو ناراض کر کے صرف اس لیے گیا کہ شہباز گل ،میاں عظیم سے معافی مانگ لیں، وہاں میاں عظیم تو نہ آئے لیکن شہباز گل نے اپنے خطاب میں میاں عظیم سے دلی معذرت کی ، کاش کوئی نوجوان لیڈروں کو سیاست سکھانے سے پہلے بڑو ں کا احترام کرنا بھی سکھائے کیونکہ اسی غلط رویے سے نہ صرف ان کی بلکہ پارٹی کی بھی بے عزتی ہوتی ہے لیکن کیا کریں جب پارٹی کا لیڈر ہی بد زبان ہو تو باقیوں کا کیا کہنا ، میرے وہاں جانے کا مقصد صرف اس نوجوان کو اپنی غلطی کا احساس دلانا تھا جس کا برادر امجد نواز نے وعدہ کیا تھا ، اس واقعہ کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہو رہا ہے کہ آج کل ہمارے نوجوانوں کو دنیاوی علم کے ساتھ دینی علم کی زیادہ ضرورت ہے ، میں نے شہباز گل کو باتوں باتوں میں احساس دلایا کہ ایک عام شہری اور رہنما میں فرق ہوتا ہے ، عام شہری سوال جواب میں جو بھی کہہ سکتا ہے لیکن ایک ملک کے رہنما کو بہت سوچ سمجھ کر حکمت سے جواب دینا ہوتا ہے ، کچھ لوگوں نے میرے وہاں جانے کا غلط مطلب لیا ، ان سے صرف اتنا کہنا ہے کہ جب شہباز گل نے بدتمیزی کی تو واک آئوٹ کیلئے سب سے پہلے میں نے قدم بڑھایا تھا لیکن ہمارے دوستوں نے اس کے بعد کوئی حکمت عملی نہیں بنائی کہ ان کا بائیکاٹ مزید کرنا ہے کہ نہیں اور اگر وہ معافی مانگتا ہے تو کیا کرنا چاہئے لیکن شاید انھوں نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا ہوگا، اس لیے پھرمیں بھی اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد تھا ، کچھ درمیان کے لوگ اپنی اپنی بولیاں بول کر تعلقات خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ہماری میڈیا برادری کیلئے اتحاد پیدا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے کہ اگر کسی ایک سے بھی بدتمیزی کی جائے تو سب اختلافات بھلا کر متحد ہو جائیں، میاں عظیم کیلئے بہت احترام ہے ،اللہ تعالیٰ انہیں صحت و ایمان والی زندگی نصیب کرے ، انسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے ، میں نے بھی سیکھا ہے ،ہم سب کو اپنے بڑوں کا احترام کرنا چاہئے ،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میاں صاحب کا سایہ ہم پر سلامت رکھے۔ (امین)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here