حالات کا رُخ

0
108
جاوید رانا

گزشتہ کالم کی اختتامی سطور میں وطن عزیز کی حالیہ سیلابی صورتحال اور عوام کی مشکلات پر ہم نے واضح کیا تھا کہ عوام کا اعتبار موجودہ حکمرانوں سے اُٹھ چکا ہے اور عمران خان نہ صرف سیاسی حوالے بلکہ موجودہ آزمائش کی گھڑی میں بھی عوامی اعتبار سے مقبولیت کے بام عروج پر نظر آتا ہے، اس حوالے سے نہ صرف کپتان کے عوام سے رابطوں، جلسوں نے نئی تاریخ رقم کی ہے بلکہ عمران کی فنڈریزنگ ٹیلی تھون بھی ریکارڈ بنی ہے۔ گزشتہ ہفتے میں کپتان نے بالترتیب بہاولپور، گجرات اور فیصل آباد میں عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔ گجرات میں ظہور ہائوس پر ہونیوالے جلسے میں چوہدری شجاعت کے حوالے سے جو عوامی رد عمل سامنے آیا، اس امر کی نشاندہی سے لگتا ہے کہ چوہدری شجاعت کی سیاسی اہمیت آئندہ کیلئے ختم ہونے کو ہے۔ یہی نہیں چودھری پرویز الٰہی و مونس الٰہی کے عمران کی موافقت میں استدلال و روئیے کے باعث چوہدریوں کے خاندان اور سیاست میں بھی رخنے پڑنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ فیصل آباد کا جلسہ یقیناً تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع قرار پایا۔ مبصرین کے مطابق گزشتہ 7 دہائیوں میں عوام کا اس طرح کا جمِ غفیر کبھی نظر نہیں آیا۔ فیصل آباد کے جلسے میں عوام کے جذبات اور والہانہ محبت کے تناظر میں کپتان کے خطاب کے دوران دو جملے ”نواز اور زرداری ایسا آرمی چیف نہیں لانا چاہتے جو تگڑا اور محب وطن ہو، کیونکہ اگر ایسا آرمی چیف آئے تو وہ ان کا احتساب کریگا”۔ کپتان کے ان دو جملوں سے ایسا سیاسی طوفان کھڑا کر دیا گیا ہے جس میں مخالف سیاسی اشرافیہ ہی نہیں دیگر ریاستی ادارے حتیٰ کہ عدلیہ بھی سراپا احتجاج نظر آرہی ہے۔ میڈیا میں بھی عمران مخالف چینلز اور اینکرز ان جملوں کو کپتان کی سیاسی کشتی میں سوراخ کے مترادف قرار دینے پر مُصر ہیں، دوسری جانب عمران کے حامی چینلز، اینکرز اور وی لاگرز عمران خان کی حمایت میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ آئی ایس پی آر، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے احتجاج و ریمارکس تو اپنی جگہ صدر مملکت کا خان کے ان جملوں سے لاتعلقی کا اظہار بڑا عجیب لگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران کا یہ بیان آئینی حوالے سے یُوں تھا کہ وزیراعظم کو آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار حتمی ہوتا ہے، آرمی کا سلیکشن بورڈ بعض ناموں کی سفارش کرتا ہے اور ان میں سے وزیراعظم کسی ایک جنرل کا انتخاب کرتا ہے جس میں کسی سے مشورہ کرنا بھی نہیںہوتا ، خواہ وہ قائد حزب اختلاف ہی کیوں نہ ہو۔ موجودہ بھان متی حکومت میں حکومتی وزیراعظم بالذات خود کوئی فیصلہ نہیں بلکہ اسے زرداری، فضل الرحمن اور سب سے بڑھ کر نا اہل نوازشریف سے مشورہ بلکہ اجازت کا مرحلہ درکار ہوتا ہے، اس تناظر میں عمران خان کی اس بات پر واویلا محض وہ سوچ ہے جہاں سب عمران کو دیوار سے لگانے اور سیاسی منظر نامے سے باہر کرنے پر متحد نظر آتے ہیں۔ ہم پہلے بھی اس حوالے سے عرض کرتے رہے ہیں کہ مختلف وجوہ و اقدامات کی بناء پر عمران پر کتنی ہی قدغنیں لگائی جائیں، عوامی حمایت و قوت کپتان کی طاقت ہے اور اس طاقت سے ٹکرانا آسان نہیں ہے۔
جہاں تک ہماری افواج کا تعلق ہے ہمیں اعتراف ہے کہ ملک و قوم کی سلامتی کی ضمانت ہمارے محافظ ہیں سرحدوں پر بھی اور وطن کے اندر بھی۔ ان سطور کے لکھے جانے پر ہمیں 6 ستمبر 1965ء یاد آرہی ہے کہ جب ہماری بہادر افواج نے ازلی دشمن کے ناپاک ارادوں کو ملیا میٹ کر دیا تھا۔ ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ ہماری فوج ملک کا انتہائی منظم و معتبر ادارہ ہے اور اس کے اپنے قواعد، قوانین و ضابطے نہایت مدّون ہیں۔ ان کے رینک و فائلزمیں یکجہتی مثالی ہے اور سیاسی مداخلت ان کا شیوہ نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا احتجاج بجا سہی، لیکن کیا صرف عمران خان کا متذکرہ بیان ہی اس ادارے کیلئے تشویش ہوا ہے۔ ماضی میں نوازشریف، زرداری، مریم صفدر، موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف اور فضل الرحمن و دیگر ن لیگیوں کے نفرتیں بیانات کیا ادارے کیلئے قابل تشویش نہ تھے مگر ان پر درگذر کیا جاتا رہا۔ یہاں یہ سوال ضرور اُبھرتا ہے کہ عمران خان کیلئے قوانین و ضوابط دوسرے کے مقابل برعکس کیوں؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں سربراہوں کی بذات خود یا ماضی کی حکومتوں کی رضا یا مجبوری سے توسیع نہیں ہوتی رہی اور کیا وہ قواعد و ضوابط کے مطابق تھیں؟ ان سوالا ت کے جواب کچھ مشکل نہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ ان اوپن سیکریٹس پر مزید گفتگو سے گریز ہی کیا جائے۔
حالات جس رُخ پر جا رہے ہیں وہ یقیناً نہ ملک و عوام کیلئے بہتر نظر آرہے ہیں نہ ہی ریاست و سیاست کے حوالے سے موافق لگتے ہیں۔ معاشی طور پر اشیائے ضرورت کی گرانی، دنیا بھر میں پیٹرول کی قیمتیں کم اور وطن عزیز میں بڑھ رہی ہیں، سیلاب کے باعث آنے والے بُرے حالات کیساتھ سیاسی ایرینا میں بدترین صورتحال و بے یقینی کے گہرے سائے مستقبل کے حوالے سے فکر انگیزی کی بشارت دے رہے ہیں۔ نومبر میں آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے متضاد سیاسی بیانیوں، عمران خان پر مختلف الزامات و وجوہات کی بناء پر مقدمات و رکاوٹوں کی بھرمار، کپتان کے خطاب کا بلیک آئوٹ اور میڈیا پر پابندی (اب بول بھی بند کر دیا گیا) جیسے اقدامات محض اسی لئے کئے جا رہے ہیں۔ ان عمران مخالف حرکات سے کپتان کی حمایت و ہمدردی کا طوفان شدید ترین ہوتا جا رہا ہے۔ شنید یہ بھی ہے کہ درآمدی حکومت بغض عمرانیہ میں اس حد تک جا چکی ہے کہ خواہ سیاست کی بساط لپیٹ دی جائے عمران کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی جماعت اور عمران عوام کا غیر متنازعہ اعتبار و اعتماد ہے۔ اس حقیقت کے باعث کہ عوام عمران کیساتھ ہیں اس کے خلاف کوئی بھی اقدام ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ حالات کا رُخ مختلف حوالوں سے بہتر نظر نہیں آرہاہے، مبصرین کا خیال ہے کہ ستمبر ستمگر ہو سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here