کبھی شاعر اپنی شاعری میں یہ باتیں کرتے تھے کہ ہوائیں باتیں کرتی ہیں مگر اب یہ کوئی شاعر کا شعر نہیں حقیقی باتیں ہیں اب فون ٹیکسٹ میسیج اور فیس بک کے ذریعے اتنی جلدی باتیں ایک سے دوسرے تک پہنچتی ہیں کے یوں لگتا ہے ہوا کے ذریعے ابھی کوئی بات ہوئی نہیں کہ دوسرے تک پہنچ گئی۔ ابھی کہیں جانے کا ارادہ کیا، کسی سے ذکر کیا، فون سے وہ بات دوسرے تک پہنچی اور پھر تیسرے تک پورے خاندان میں مشہور ہوگیا ،آپ کہیں جارہے ہیں ،ابھی تو آپ نے اپنے ٹکٹ بھی نہیں بک کرائے، اس میں بھی ٹائم لگا مگر آپ کی بات ضرور دوسرے تک پہنچ گئی، ابھی آپ کے ہاں کوئی فنکشن ہوا اور ہوائوں کے ذریعے سب کو پتہ چل گیا۔ ابھی بچہ اس دنیا میں آنے کی کوشش ہی کر رہا ہے کے تمام لوگوں کو پتہ چل گیا کے آپ اگلے تین منٹ میں والدین یا نانا، دادا کچھ بھی بننے والے ہیں، اب آپ ہی بتائیں شاعر غلط تو کہتے تھے ہوائیں باتیں کرنے لگی ہیں، پہلے ایک بات کہی جاتی تھی کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، اب سنبھل کر بھولو، آہستہ بولو، دیواروں سے تو پھر بھی بچا جا سکتا ہے ہوائوں سے کیسے بچیں۔ اب تو یہ مقولہ عام ہونیوالا ہے کہ نہ صڑف دیواروں کے کان ہوتے ہیں ، کمرے میں، گھر میں بسنے والی ہوا کے بھی کان ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ آپ کی باتیں نگر نگر لے کر پھرتی ہے۔ آپ کہاں ہیں کیا کر رہے ہیں کیا بول رہے ہیں ہوائوں کو سب پتہ ہے اس لیے آج کل کچھ زیادہ ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اب جنید جمشید کو ہی لے لیجئے انہوں نے جو بولا جہاں بھی بولا سب کو پتہ چل ہی گیا اب تو ہر شخص کو تولے بغیر بولنا نہیں ہے۔ کیسے کیسے محاورے سچ ثابت ہو رہے ہیں پہلے یہ صرف کہاوت تھی پہلے بولو پھر تولو، اب تو یہ بھی حقیقت بن گئی ہے اس حقیقت میں بہت سچائی ہے۔ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانے والی سچائی ہے۔ اب آپ بات بول کر مکر نہیں سکتے، اب آپ بغیر معلومات کے درس نہیں دے سکتے۔ بغیر معلومات کے ٹیچر غلط نہیں پڑھا سکتے، گپ بازی کرنے والوں کی بھی بڑی مصیبت ہوگئی ہے۔ جیسے ہی گپ ماری دوسرے سے تیسرے تک بات پہنچ گئی، اب لوگ ایک دوسرے پر کم توجہ دیتے ہیں ،ہوائوں سے باتیں زیادہ کرتے ہیں ،کوئی راستے میں بولتا چلا جارہا ہے، غور کرو تو معلوم ہوتا ہے کے فون پر بات ہو رہی ہے، کوئی گھر میں بیٹھا کسی کو پیغام بھیجنے میں مصروف ہے ،ہوائوں کے ذریعے پیغامات پر پیغامات آرہے ہیں ،تصویروں پر تصویریں آرہی ہیں، برابر والا کیا کر رہا ہے یہ معلوم نہیں گھر میں بیٹھا فرد کس تکلیف میں مبتلا ہے یہ بھی پتہ نہیں مگر دور بیٹھے انسان کسی ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے ہیں، یہ معلوم ہے، دنیا کہاں سے کہاں جارہی ہے ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے زیادہ ہی جڑ گئے ہیں۔
٭٭٭٭