انتخابی معرکہ!!!

0
2
شبیر گُل

امریکا میں آج 5 نومبر کے صدارتی انتخابات ہیں ۔انتخابات قریب آتے ہی ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلہ کانٹے دار ہوچکاہے تاہم ہر امریکی الیکشن کی طرح اس مرتبہ بھی سیاسی مہمات پر اربوں ڈالر بہائے جا رہے ہیں۔نیویارک لانگ آئی لینڈ سے پاکستانی نژاد عامر سلطان ،نیوہمشائر ، نیوجرسی، مشی گن، فلوریڈا، ہیوسٹن، شکاگو اور کئی دوسرے مقامات سے مسلم امیدوار بھی اس انتخابی معرکہ میں حصہ لے رہے ہیں ۔امریکہ میں ہمارے ممالک کی طرح بہت مہنگے انتخابات ہوتے ہیں ۔ہمارے ممالک میں امیدوار اپنی جیب سے پیسہ لگاتے ہیں لیکن امریکہ میں ساری انتخابی مہم لوگوں کی ڈونیشنز اور بڑی کمرشل کمپنیوں کی خطیر رقم سے چلتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ رواں ماہ 5 نومبر کو امریکی صدارت کیلئے ہونے والے انتخابات جدید انسانی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن ہونے ہیں۔ قارئین !۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کیش آتا کہاں سے ہے؟ ڈیموکریٹس کی کملا ہیرس نے جیسے ہی صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کیا تو اگلے 24 گھنٹوں کے اندر ان کے کیمپین فنڈ میں 81 ملین ڈالر جمع ہو گئے، تین مہینوں میں یہ رقم بڑھ کر 1 ارب ڈالر ہو گئی ہے جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ادھر ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے پاس بھی بہت پیسہ ہے۔ ستمبر تک ٹرمپ نے 160 ملین ڈالر جمع کر لیے تھے، یہ رقم الیکشن اشتہارات، ریلیوں اور آن لائن کیمپین کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ امریکا میں انتخابی مہم کی فنانسنگ کو شفاف رکھنے کیلئے کئی قوانین ہیں، جیسے سیاسی جماعت کو پیسہ دیا جا سکتا ہے لیکن امیدواروں کو براہ راست فنڈز دینے کی حد مقرر ہے۔ قانونی طور پر ایک شخص ایک امیدوار کو 3300 ڈالرز سے زیادہ رقم نہیں دے سکتا تاہم اس میں ایک چور راستہ ہے امریکی انتخابات میں پولیٹیکل ایکشن کمیٹیز PACs کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ پریشر گروپس ہیں جو تیل اور گیس، ایرو اسپیس، اسلحہ ساز کمپنیوں سمیت بڑی بڑی صنعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 2010 میں سپریم کورٹ کے حکم پر سپر PACs بھی بنادی گئیں، جن کی فنڈنگ افراد بھی کرتے ہیں، یونیز بھی اور کارپوریشنز بھی کر سکتی ہیں۔ یہ سپر PACs صدارتی امیدوار کو براہ راست فنڈ نہیں کر سکتیں لیکن امیدوار سے جڑی کسی بھی تنظیم کو جتنی رقم چاہیں دے سکتی ہیں۔ یوں امریکا کے امیر افراد یا لابیز اپنے پسند کے امیدوار کی سپورٹ پر جتنا پیسہ لٹانا چاہیں لٹا سکتی ہیں۔میں اپنی بیماری سے پہلے نیویارک انتخابی امیدواروں کی مہم اور فنڈیزنگ میں شامل رہا۔ الیکشن جیتنے کی صورت میں منتخب ارکان کلوز سرکل کیطرف سے پارکس ،روڈز کے ملینز آف ڈالرز کے ٹھیکوں کے bids میں حصہ لینے کی کئی آفرزہو چکی ہیں ۔جسے میں نے 9/11 کا وکٹم ھونے کی وجہ سے الحمد للہ قبول نہ کیا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ بڑی ڈونیشنز دینے والوں، فنڈ ریزنگ کرنے والوں یا کمرشل کمپنیز کو حمایت کرنے پر نوازنے کے لئے یہ اختیار کیا جاتا ہے تاکہ انہیں جتوانے والے سپورٹرز کو اکاموڈیٹ کیا جاسکے۔ لوکل سطح سے، اسمبلی، کانگرس اور مئیر کے الیکشن میں انتخابی امیدوار اپنی ذات کے لئے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں جو امریکن سیکرٹ سروسیز کی نظروں سے مشکل بچ پاتے ہیں اور انہیں مالی کرپشن یا مالی منعفت کے گھپلے میں دھر لیا جاتاہے جیسے آجکل نیویارک کے مئیر کو ان مشکلات سے گزرنا پڑرہاہے لیکن سیاست میں پیسے کا اثر رسوخ پریشانی کی بات ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاست میں پیسے کا اثر رسوخ پریشانی کی بات ہے کیونکہ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ الیکشن عوام کی مرضی کا عکاس ہے یا امیر ڈونرز کی مرضی کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل متنازع ارب پتی ایلون مسک نے جولائی میں اعلان کیا کہ وہ ٹرمپ کی حامی سپر PAC کو الیکشن سے پہلے ہر مہینے 45 ملین ڈالرز دیں گے۔ اسی طرح ایک اور قدامت پسند ارب پتی میریم ایڈلسن نے بھی ٹرمپ کی حامی سپر PAC کو 95 ملین ڈلر کا الیکشن چندہ دیا۔ اس دفعہ صدارتی انتخابات میں مسلم ویلیوز کے لخاظ سے ٹرمپ کوایج حاصل ھے۔عالمی پس منظر میں دیکھا جائے تو لبرلز پر کنزرویٹوزکو برتری حاصل ھے۔ایمیگرنٹس کے حوالہ سے ڈیموکریٹس بہتر پالیسی رکھتے ہیں۔ ریپلیکنز فیملی ویلیوز اور اکانومی کے حوالہ سے بہتر ہیں۔ان الیکشنز میں عرب مسلم،ایشین مسلم ،ایفرو امریکنز کے ووٹ کی تقسیم لمحہ فکریہ ہے۔مسلم ووٹرز گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ انکی اکثریت کا ووٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ ھے۔ خصوصا نوجوان مسلم ووٹرز کسی فیصلہ پر نہیں پہنچ سکے۔ بڑی مسلم آرگنائزیشنز ، کئیر ،اکنا، مجلس شوری ،مسلم الائنس ، امہ جیسی تنظیموں نے گرین پارٹی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ھے۔ لیکن مسلم ووٹرز بڑی تعداد میں ووٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کر کے ہیں جس کا نقصان ڈیموکریٹس کو ھوگا۔ مقابلہ بہت ٹف ھے۔ جیت کسی کی بھی ھوسکتی ھے۔ سوئینگ اسٹیٹس اور الیکٹورل ووٹ انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پروفیسر ایلن لیچ مین گزشتہ تیس سال سے امریکی الیکشنز production کرتا ہے جو صیح ثابت ھوتی ھے۔ اس بار بھی اس نے کمالا ہیرس کی جیت کو یقینی کہا ھے۔ٹرمپ کی ہار کی صورت میں جو تباہ کن صورتحال امریکہ میں ھوسکتی ھے۔ اسکا انداز لگانا مشکل ھے۔ ٹرمپ کے متنازعہ بیان نے نئے طوفان کی بنیاد رکھ دی ہے۔کہ الیکشن کو چرانے کی کوششکی جاری ھے۔ بین الاقومی تجزیہ کاروں کہنا ھے کہ ٹرمپ کی ہار پر حامی مختلف جگہوں پر حملے کرسکتے ہیں۔اس پر قابو پانے کے لئے آرمی ڈرلنگ کررہی ھے۔ تاکہ خراب صورتحال کے پیش نظر وائٹ ہاس ، ڈیموکریٹ ارکان کی خفاظت کی جاسکے۔ غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ھے کہ انتحابات میں جتنا مرضی جھرلو پھیر ا جائے ٹرمپ کی الیکشن میں جیت یقینی ھے۔ بحرحال معرکہ بہت سخت ھے ۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ھے کہ اگر ٹرمپ کا راستہ روکا گیا تو امریکہ میں ہنگامے پھوٹ سکتے ہیں۔ ٹرمپ ہر رہی میں ملکی معیشت،دنیا میں جاری جنگوں پر ڈیموکریٹس کو آڑے ہاتھوں لے رہا ھے۔ ٹرمپ کے حامی فل چارج ہیں۔ وہ شکست کو کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔ ریپلیکنز میں ٹرمپ بہت طاقتور حیثیت رکھتے ہیں ۔ تھرٹی فور felines کے باوجود اسکی نامینیشن اس کا بین ثبوت ھے۔ دونوں جماعتوں کے ان دونوں انتخابی لیڈروں سے بڑھ کر دوسرا کوئی امیدوار نہیں تھا۔سنجیدہ حلقے دونوں صدرارتی امیدواروں کو جوکر قرار دے رہے ہیں۔ امریکہ میں اسٹبلشمنٹ کا بہت عمل دخل ھے۔ اس لئے ٹرمپ بار بار اسٹبلشمنٹ کا ٹارگٹ کررہے ہیں۔ امریکہ میں مسلم ووٹرز تذبذب کا شکار ہیں۔ انکا حال نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے جیسا ھے۔ مشی گن میں یمنی کمیونٹی بڑی تعداد میں آباد ھے انکے اپنے اسمبلی ممبرز اور نء مئیر ہیں ۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے ٹرمپ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ھے۔ مسلم ووزترز کی اکثریت ڈیموکریٹس کی سپورٹر ھے۔حالنکہ ڈیموکریٹس کا پارٹی منشور مسلمانوں کے نظریاتی تشخص سے مطابعت نہیں رکھتا۔ گے میرج اور ابارشن جیسے متنازعہ قانون پر مسلم ووٹرز کو شدید تخفظات ہیں۔ یہ قانون بے حیائی اور ننگے پن کی بیہودہ ترغیب ھے۔ کمالا ہیرس اور جوبائیڈن کا کہنا ھے کہ ٹرمپ اور اسکے ووٹرز گاربیج ہیں۔ جس کے جواب میں ٹرمپ نے اپنا گاربیج ٹرک لاکر اپنے ووٹرز ،کمالا ہیرس اور جوبائیڈن کو پیغام دیا ھے ۔کہ میں اسی گاربیج کے ساتھ کھڑا ھوں ۔اسے ٹرمپ کے ووٹرز میں بہت دلچسپی سے لیا جا رہا ھے۔ ٹرمپ مڈل اور لوئر کلاس کو اٹریکٹ کرنے کے لئے مکڈانلد پر اپرن میں کھڑے نظر آئے۔ جس پر کچھ حلقے ٹرمپ کو کارٹون قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ھے کہ یا تو امریکہ کی اسٹبلشمنٹ رہے گی یا ھم رہنگے۔ اگر کسی نے الیکشن کو ریگ کرنے کی کوشش کی تو اسٹبلشمنٹ رہے گی یا ہم رہنگے۔ یاد رہے کہ ڈیپ اسٹیٹس میں ٹرمپ کی حمایت 67% ہے۔ بیروزگاری اور اکنامک فیلئیر کی وجہ سے ڈیموکریٹس کی حمایت میں کمی اور ٹرمپ کی حمایت میں اضافہ ھوا ھے۔ دنیا کے بڑے ممالک اور عرب ممالک ٹرمپ کو آئیندہ صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں امن چاہتے ہیں۔ چین، روس، بھارت اور پورا مڈل ایسٹ چاہتا ھے ٹرمپ جیت کر آئے۔ اس وقت امریکہ میں سنجیدہ لوگ تشویش کا شکار ہیں۔ انہیں ٹرمپ کی جیت یا ہار کی صورت میں بدامنی اور انتشار نظر آرہا ھے۔موجودہ حکومت میں امریکہ کی اکانومی زوال پذیر ھوئی ھے۔ بیروزگاری میں اضافہ ھوا ھے۔ آئیندہ آڑتالئس گھنٹے معلوم ھو جائے گا کہ جیت کا سہرا کس کے سر سجے گا۔انتحابات میں زیادہ گہماگہمی سوینگ اسٹیٹس میں رہی۔ نارتھ کیرولینا، جارجیا، نوادا،وسکانسن، پنسلوانیا،ایری زونا۔ مشی گن میں ووٹر بہت چارج دیکھا گیا۔ گزشتہ ہفتہ سوانا پوسٹ کے مطابق۔ نوادا نارتھ کئرولینا،وسکانسن،جارجیا،پنسلوانیا،مشی گن اور ایری زونا میں ٹرمپ پر کمالا کو برتری حاصل تھی۔ دونوں صدارتی امیدوار اپنی اپنی جیت کے لئے مطمئن ہیں ۔ امریکہ سپر پاور اور دنیا کی بڑی اکانومی ھے۔ جس کے انتخابات کو پوری دنیا میں دلچسپی سے دیکھا جاتا ھے۔ اسکے اثرات پوری دنیا پر پڑتے ہیں۔حصوصا مسلم ممالک پر۔ جیت کسی کی بھی ۔اللہ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو۔فکسطین، لبنان، شام ،عراق اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے لئے بہتر ہو(آمین)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here