امریکہ میں مہنگائی کا ہوشربا طوفان: قیمتیں ڈبل

0
117

نیویارک (پاکستان نیوز) امریکہ میں مہنگائی کا نئے طوفان نے سراُٹھا لیا ،1982 کے بعد پہلی مرتبہ ایک سال کے دوران افراط زر کی شرح 7فیصد پر پہنچ گئی جوکہ 2017 کے دوران2.1 فیصد جبکہ 2020 کے دوران1.4 فیصد تھی، گیس کی قیمتیں 299ڈالر سے 499ڈالر تک پہنچ گئیں، بریڈ2سے 5ڈالر پر آگئی ہے ، بجلی ، گیس بلوں ، تعلیمی اداروں کی فیسوں ، پیٹرولیم مصنوعات، گندم، چاول، سبزیوں، دالوں کی قیمتوں میں اضافے نے شہریوں کے ہوش اُڑا دیئے، طلب و رسد میں عدم توازن کو بھی مہنگائی کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے ، بائیڈن انتظامیہ اور دیگر جگہوں پر ماہرین اقتصادیات نے اپنی بنیادی توجہ لیبر مارکیٹ میں ہونے والی پیش رفت پر مرکوز کی اور رقم کی نمو میں ڈرامائی تیزی کے اثرات کو مسلسل نظر انداز کیا۔ ٹریژری سکریٹری جینیٹ ییلن جو شاید بائیڈن انتظامیہ کے بہترین ماہرین اقتصادیات ہیں نے مارچ 2021 کو ”ایم ایس این بی سی” پر ایک انٹرویو میں مہنگائی میں متوقع اضافے کے امکانات کو یکسر طور پر مسترد کر دیا تھا، کرونا اور اومیکرون کیسز کے باعث بے روزگاری کی شرح 3.5 فیصد تھی اور مہنگائی میں اضافے کا کوئی امکان نہیں تھا لیکن، جیسے جیسے قیمتیں بڑھیں، ییلن مستقبل کی افراط زر کے بارے میں اس خوش فہمی سے پیچھے ہٹ گئے۔امریکہ میں گزشتہ برس کے آخری ماہ دسمبر میں بھی مہنگائی مسلسل بڑھتی رہی اور گھروں کے کرائے اور پرانی کاروں کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی میں گزشتہ چار عشروں میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ سے خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکی فیڈرل ریزرو رواں برس مارچ میں سود کی شرح میں اضافہ کر سکتا ہے۔لیبر ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق لیبر مارکیٹ میں روزگار کی شرح بلند سطح پر تھی۔ سینیٹ کی بینکنگ کمیٹی کے روبرو فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاؤل نے کہا کہ امریکی سینٹرل بینک مہنگائی کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کے لیے تیار ہے۔ بعض معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی شرح کے عالمی وبا سے پہلے کی شرح پر جانے کا امکان بہت کم ہے۔مالیاتی خدمات کی کمپنی ‘آئی این جی’ کے چیف بین الاقوامی معیشت دان جیمز نائیٹلی کے مطابق امریکہ میں مہنگائی کے دباؤ کے کم ہونے کا امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔مہنگائی کا مسئلہ صرف امریکہ میں نہیں ہے بلکہ یورپی یونین میں بھی رواں برس کی شروعات میں مہنگائی کی شرح پانچ فی صد تک پہنچ گئی جو کہ ان ممالک میں ریکارڈ اضافہ ہے۔دسمبر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ دسمبر میں پیٹرول اور خوراک کی قیمتوں میں معمولی کمی سے پتا چلتا ہے کہ حکومت کی مہنگائی کم کرنے کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ماہرین معیشت کے مطابق ملک میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ طلب اور رسد کے درمیان عدم توازن ہے۔ ملک میں کاروں کی قیمتوں میں 37 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ فرنیچر کی قیمتوں میں 14 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔امریکہ میں مہنگائی کو ایسے بن بلائے مہمان سے تشبیہ دی جارہی ہے جو گھر سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ماہر معاشیات کئی ماہ سے یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ امریکہ میں اشیا کی قیمتوں میں کئی نسلوں کے بعد ہونے والا اضافہ زیادہ عرصے برقرار نہیں رہے گا۔ امریکی فیڈرل ریزرو کے چیئرپرسن جیروم پاول کے الفاظ تھے کہ مہنگائی عارضی ہوگی لیکن اگر آپ کسی بھی امریکی شہری سے بات کریں ، جو دودھ، تیل یا پرانی گاڑی خریدنے نکلا ہو تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مہنگائی کی صورتحال مستقل ہو گئی ہے۔ اور معاشیات کے ماہر کہہ رہے ہیں کہ امریکہ میں مہنگائی اگلے سال تک جاری رہے گی۔اوباما انتظامیہ میں مشیر برائے اقتصادیات رہنے والے جیسن فرمین کہتے ہیں کہ مہنگائی جاری ہے اور یہ تشویش ناک رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ گاڑیوں کے چلانے کو گیس کی قیمت میں پچاس فیصد، واشنگ میشین اور ڈرایئر کی قیمت میں پندرہ فیصد جبکہ استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں چھبیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here