ہم سب زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں کبھی خوش ہو کراللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔اور کبھی ناشکری بھی اختیار کر لیتے ہیں۔زندگی کچھ لوگوں کو مختصر ملتی ہے اور کچھ لوگوں کو طویل ملتی ہے۔ابھی جمعہ ہی کی بات ہے ہمارے ایک جاننے والوں کا20سال کا جوان لڑکا اچانک ہی انتقال فرما گیا۔اس لڑکے کو کینسر تھا پڑھا لکھا تھا لیکن زندگی مختصر تھی اب اس کے والدین کے لیے کتنا بڑا ناگہانی صدمہ ہے۔شکر کریں وہ لوگ جو کہ صحت مند ہیں اور اپنے بچوں کی طرف سے صحت کی فکر نہیں ہے۔ہم جب دین کو اختیار کرتے ہیں تو اس بات پر اللہ کا شکر نہیں ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں ایک اچھی راہ دکھائی ہے بلکہ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اُلجھے رہتے ہیں کوئی یہ سوچتا ہے کے ہم لوگ قرآن خوانی کیوں کراتے ہیں۔کوئی یہ سوچتا ہے کہ ہم یٰسین کیوں پڑھوا رہے ہیں۔کوئی اس بات پر لڑتا ہے کے میں تو قرآن خوانی بھی کرائوں گااور میلاد بھی کرائوں گا۔ہم یہ شکر ادا نہیں کرتے کے ہم مسلمان ہیں اور ہمارے آباو اجداد مسلمان ہیں۔ان لوگوں کو دیکھیں جو اکیلے ہی چل کر دین میں داخل ہوئے ان کے گھر کا کوئی فرد بھی مسلمان نہیں ہے۔ہزاروں مخالفین ہیں خاندان سے بائیکاٹ ہے پھر بھی خوش ہیں کے ہم نے صحیح مذہب کو اپنایا ہوا ہے شکرادا کرتے ہیں۔
جب ہم پاکستان میں تھے تو امریکہ کے خواب دیکھتے تھے یہاں ان کی تمنا تھی بہت بھاگ دوڑ کرتے تھے کے امریکہ جائیں ابھی بھی بہت لوگ پاکستان سے یہاں آنا چاہتے ہیں۔اور کوشش بھی کرتے رہتے ہیں جب کے اب حالات ویسے نہیں رہے جیسے پہلے تھے۔وہ لوگ جو اب امریکہ آگئے ہیں اور خوشحال بھی ہیں شکر نہیں ادا کرتے زندگی میں ٹھیرائو نہیں ہے بے چینی اور ناخوشی کااظہار کرتے ہیں حالانکہ مشکلات کہاں نہیں ہیں۔شکر کی منزل کیا ہے۔کسی بھی مقام پرجس کی آپ نے تمنا کی تھی۔پہنچ کر تھوڑا سا غوروفکر کا وقت نکالیں آپ کو اساس ہوجائے گا کے یہی شکر کی منزل ہے۔اس مقام پر پہنچنے کے لیے اس جگہ کو پانے کے لیے اس شخص کو حاصل کرنے کے لیے آپ نے کوشش کی آپ کی تمنا تھی کے آپ نے دل میں بسیرا کرلیا ہے۔اور آپ بھول گئے کے یہی شکر کی منزل ہے جس دن شکر نے دل میں گھر کر لیا اسی دن آپ ایسی منزل جس کی آپ کبھی تمنا نہیں کرتے آپ کو تمنا تو ہر چیز حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔لیکن چھوٹا سایہ لفظ آپ کی زندگی سے ہمیشہ دور رہتا ہے۔جسے ہم شکر کہتے ہیںجو سورہ فاتحہ سے شروع ہوتا ہے جسے ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔الحمدللہ رب العالمین مگر پھر بھول جاتے ہیں۔اور تمنائوں کا ڈھیر لگا کر اس کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور منزل کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے نہیں جانتے۔
٭٭٭