گرین کارڈ کی بجائے ہتھکڑی پہنادی گئی!!!

0
1
حیدر علی
حیدر علی

کتنی تمناؤں کا گلا گھونٹ دیا جارہا ہے، کتنی امیدوں پر پانی پھیر دی جارہی ہیں، کتنے افراد اپنے گھر سے ایک عزم لے کر نکلے تھے کہ وہ امریکا جاکر محنت و مشقت کرینگے ، اپنے بچوں کو سکول میں داخلہ کرانے کے اہل ہونگے، لیکن جب وہ بوجھل قدموں سے اُسی گھر میں پہنچتے ہیں تو گھر میں کیسی قیامت نازل ہو جاتی ہے اِسکا علم تو صرف اُنہیں ہوسکتا ہے جسے سانپ ڈسا ہو ،ایسے افراد ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں میں ہیں جن کی امریکی زندگی کا سہانا خواب دِن دہاڑے کچلا گیا ہو۔سان ڈیاگو کی فیڈرل بلڈنگ میں اسٹیفن پاؤل اپنی برطانوی اہلیہ اور اپنے چار سالہ بچے کو لے کر داخل ہوتا ہے ، اُس کی اہلیہ گرین کارڈ کیلئے انٹرویو دینے آئی تھی،گرین کارڈ کی انٹرویو ختم ہوگئی اور امیگریشن آفیسر نے فائل کو اپنے ٹیبل کے ایک کنارے رکھ دیا، اُسی لمحہ تین نقاب پوش جنہوں نے اپنے آپ کو آئس کے ایجنٹس کے طور پر تعارف کرایا کہا کہ وہ اُن کی اہلیہ کیٹی کو گرفتار کر رہے ہیں،اسٹیفن پاول نے اپنے بچے کو اپنی روتی ہوئی اہلیہ کے ہاتھوں سے لے لیا اور ایجنٹس مسز پاول کو اپنے ساتھ ڈیٹنشن سینٹر لے گئے جہاں سینکڑوں دوسرے غیر قانونی تارکین وطن کو ٹرمپ انتظامیہ پکڑ پکڑ کر نذر زنداں کر رہی ہے،مسٹر پاؤل کو اپنی سان ڈیاگو شیریف ڈیپارٹمنٹ کی جاب سے اپنے بچے کی نگرانی اور اہلیہ کی رہائی کیلئے رخصت لینی پڑگئی۔مسٹر پاول نے کہا کہ ” جو افراد لوگوں کی فیملی لائف کو تباہ و برباد کر رہے اور جنہوں نے اُنہیں ایسا کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے اُنہیں امریکی اقدارسے سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے ” ماہ رواں میں امیگریشن کے وکیلوں نے ایسے افراد کی گرفتاری میں اچانک اضافے کے رحجان کو محسوس کیا ہے جس میں ایک جوڑے کے کسی ایک فرد کو امیگریشن آفس سے گرفتار کرلیا گیا جہاں وہ گرین کارڈ کی انٹرویو کیلئے گئے تھے۔ سان ڈیاگو کے امیگریشن وکیلوںنے یہ انکشاف کیا ہے کہ نومبر کے 12 تاریخ سے اب تک درجنوں ایسے افراد کو گرین کارڈ کی انٹرویو زکے بعد گرفتار کرلیا گیا ہے، گرفتار کرنے کی یہ روش تازہ ترین صورتحال کی پیداوار ہے۔ امریکن امیگریشن لائیرز ایسوسی ایشن سان ڈیاگو چیپٹر کے ایک رکن مسٹر نیٹور نے کہا ہے کہ اُن کے اندازے کی بنیاد وکیلوں کی ایک دوسرے سے گفت و شنید ہے ورنہ حکومت اُنہیں کوئی اعداد و شمار فراہم نہیں کر رہی ہے اور بہت سارے جوڑے وکیل کے بغیر ہی گرین کارڈ کی انٹرویو کیلئے چلے جاتے ہیں۔صد فیصد کارروائیوں میں امیگریشن اینڈ کسٹمزانفورسمنٹ کے ایجنٹس گرین کارڈ کے درخواست گزاروں کو یہ اطلاع دیتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے بزنس یا ٹوورسٹ ویزا کی معیاد سے زیادہ امریکا میں قیام کیا ہے، نیویارک ٹائمز کے عملہ نے ایک ایسے وارنٹ کی نظرثانی کی جس میں درج تھا کہ ” ممکنہ شبہات موجود ہیں جس کی وجہ سے درخواست گزار کو امریکا سے ملک بدر کیا جارہا ہے”یو ایس سٹیزن شِپ اینڈ امیگریشن سروسز آفس کے ایک ترجمان میتھو ٹراگیسر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتاری اُس وقت کی جاسکتی ہے جب کسی شخص کے خلاف کسی کیس میں وارنٹ موجود ہویا کورٹ نے اُسے ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا ہو یا اُس نے کوئی فراڈ کیا ہویا امیگریشن کے کسی فراڈ کے کیس میں ملوث ہولیکن اسٹیفن پاؤل، اُنکی اہلیہ اور اُنکے اٹارنی نے کہا کہ اُنہوں نے گرین کارڈ کیلئے تمام کاروائیاں مکمل کی تھیں، اُنہوں نے اضافی فارم پُر کیا تھا اور مزید فیس بھی ادا کی تھی، امریکن بیوی نے فنگر پرنٹ اور میڈیکل کی کاروائی کو بھی مکمل کیا تھااور کوئی بھی کسی جرائم میں ملوث نہیں تھااور نہ ہی امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل ہوا تھا،مزید برآںبیوی کو کام کرنے کا اجازت نامہ بھی ملا تھا، پاؤل فیملی کی اٹارنی جوہانا کیمی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ” گزشتہ 25 سال میں وہ کبھی بھی اِس طرح کے حالات سے دوچار نہیں ہوئی ہے”اُنہوں نے دوسرے وکلاء کے جذبات کی بھی ترجمانی کردی،اُنہوں نے مزید کہا کہ” جو بھی مطلوبہ قواعد و ضوابط تھے اُنہوں نے اُسے مکمل کیا اگر اُنکے کاغذات غلط تھے تو اُن کروڑ لوگوں کے کاغذات بھی غلط تھے جنہیں گرین کارڈ مل چکا ہے”عموما”گرین کارڈ کے درخواست گزاروں کی معیاد اُس وقت ختم ہوجاتی ہے جب اُن کی انٹرویو کی کوئی کال کسی نہ کسی وجہ کر نہیں آتی ہے، اور اُن کے ایڈجسٹمنٹ آف اسٹیٹس کی کاروائی میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں، امیگریشن کا ایک بِل 1986 ء میں کانگریس سے منظور ہواتھاجس کے تحت خاوند یا بیوی اُس وقت گرین کارڈ حاصل کرنے کے اہل ہوجاتے ہیں جب وہ امریکا میں قانونی طور پر داخل ہوتے تھے اور اُن کی یہ شرائط قابل غور نہیں ہوتیں کہ آیا اُن کے ویزے کی معیاد ختم ہوچکی ہے یا نہیں، کانگریس کے اراکین غیر مبہم تھے کہ وہ افراد گرین کارڈ لینے کے اہل ہیں،ٹرمپ ایڈمنسٹریشن یا آئس کی جانب سے ایسا کوئی ایگزیکٹو آرڈر جاری نہیں ہوا ہے جس میں یہ وضاحت کی گئی ہو کہ اُن افراد کے خاوند قانونی شکنجے میں ہیں جن کے ویزے کا معیاد ختم ہوچکا ہے حالانکہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے کثیر تعداد میں امیگریشن آفیسرز کو آئس میں بھرتی کیا ہے لیکن تاہنوز غیرقانونی افراد کی گرفتاری اور اُن کے ڈیپورٹیشن میں واضح فرق موجود ہے۔اِن حالات سے پریشان ہوکر بعض امریکی شہریوں نے امیگریشن کے اٹارنی کی خدمات حاصل کی ہیں جو اُن کے اِسپاؤز کو تو رہا کروادیتے ہیں لیکن اُن کے گرین کا کارڈ کے مسئلے کو حل ہونے میںسالوں سال لگ جاتا ہے۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here