قارئین کرام و ساری اُمّتِ مسلمہ کو ہماری جانب سے ماہ ربیع الاول کی متبرک و مسعود ساعتوں کی دلی مبارکباد۔ اس ماہ مبارک میں افضل الانبیائ، حبیبِ کبریا، دعائے خلیل، وجہ تخلیق کائنات، آقائے نامدار ۖ کا ظہور ہوا جن کے باعث رب کائنات نے دونوں جہاں بنائے، وہ دانائے سُبل ختم الرسل مولائے کُل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا، اسی محبوب رب کریمۖ کے جشن مولود کو ساری اُمت مسلمہ نہایت محبت، عقیدت، جذبوں اور فرطِ مسرت سے منا رہی ہے۔ محافل، میلاد، درود و سلام اور نذر و نیاز کے سلسلے جاری ہیں۔ شہر، قرئیے، گائوں، محلے اور گلیاں روشنیوں، سبز پرچموں، نعرہ ہائے توحید و رسالتۖ سے معمور ہیں۔ یوں تو سارے عالم اسلام میں جشن مولود نبیۖ نہایت عقیدتمندانہ طور سے منایا جا رہا ہے لیکن اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت اسلامیہ پاکستان میں جشن آمد رسولۖ کا اہتمام و انتظام ہمیشہ کی طرح بے مثال و عالی شان انداز سے کرتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے عشرۂ رحمت اللعالمین منانے کے قومی اہتمام کے ساتھ تعلیمات نبویۖ کی ترویج اور معاشرے میں نفاذ و عمل کیلئے رحمت اللعالمین اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے جس کی قیادت وہ خود کرینگے اور مختلف شعبۂ حیات کے اسکالرز اور ادارے دین کے امور معاشرت، معیشت، نظام عدالت و انصاف اور عوامی فلاح کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے۔ ہماری دعا ہے کہ وزیراعظم تعلیمات حق کے نفاذ کی تکمیل میں کامیاب ہوں اور وطن عزیز تعلیمات نبویۖ کی عملی تصویر نظر آئے۔ آمین۔
وطن عزیز کو خوشحال،مقتدر، مضبوط اور سرفراز دیکھنے کی ہر پاکستانی کی خواہش اور اس کیلئے کچھ کرنے کی لگن تو ایک قدرتی اور لازم عمل ہے اور اپنی بساط کے مطابق عمل کرتا ہے۔ البتہ کچھ شخصیات وطن کی خاطر وہ کام انجام دیتی ہیں جو نہ صرف قوم کا ہیرو بنا دیتی ہیں بلکہ ان کا کام جہاں ملک کے ہر فرد کیلئے باعث احترام و عزت ہوتا ہے وہیں ملک کی بقاء و استحکام کی ضمانت اور دشمنوں کیلئے خوف و ہزیمت کا باعث بنتا ہے۔ گزشتہ اتوار کی صبح قوم کا ایک ایسا ہی ہیرو قوم کو داغ جدائی دے کر راہیٔ ملک عدم ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پاکستان کو دور جدید میں دشمن پر برتری اور ملک و قوم کو استحکام کیلئے نیوکلیئر (جوہری) صلاحیت سے نوازنے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سانحۂ ارتحال پر نہ صرف پاکستان میں ہر فرد بلکہ بیرون ملک پاکستانی بھی غمزدہ و دلگرفتہ ہیں۔ یکم اپریل 1936ء کو بھوپال میں پیدا ہونے والے اور 1951ء میں والدین کے ہمراہ ہجرت سے کراچی میں بسنے والے عبدالقدیر خان نے ڈی جے کالج اور جامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کی۔ ہالینڈ سے میٹلارجی میں ماسٹرز، بلجیم سے پی ایچ ڈی کی اور نیو کلیائی مضمون میں حصول علم کیساتھ نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ میں ریسرچ سے منسلک رہے۔ قارئین خصوصاً پاکستان کا ہر فرد (بزرگ، جوان، بچہ) ڈاکٹر اے کیو خان کے پاکستان کے جوہری و میزائل قوت کے حصول میں قائدانہ کردار اور وطن عزیز کو دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی جمہوریت بنانے میں ان کی مساعی جمیلہ سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کی خدمات کا اعتراف جہاں دوبار نشان امتیاز، ہلال امتیاز اور ستارۂ امتیاز کی تفویض سے حکومتی سطح پر کیا گیا وہیں انہیں قوم نے محسن پاکستان کا لقب دیا گیا۔
1976ء میں یورپ میں اپنی بہترین و شاندار زندگی کو چھوڑ کر شہید ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش پر کہ پاکستان کو دنیا کا مضبوط و مستحکم ملک بنایا جائے اور دنیا کے نیوکلیائی ممالک کی فہرست میں شامل کر کے دشمنوں (خصوصاً ازلی دشمن بھارت) کیلئے ناقابل تسخیر بنانے کے خواب کو تعبیر سے روشناس کرا کر ڈاکٹر قدیر خان نے خود کو پاکستان کیلئے وقف کر دیا۔ ایک سابق جنرل کے مطابق بھارت نے 65ء کے بعد 71ء میں پاکستان پر حملہ کیا اور پاکستان کو دو لخت کر دیا لیکن 71ء کے بعد اب 2021ء تک پچاس برس میں بھارتی سورمائوں کی جرأت نہ ہو سکی کہ وہ پاکستان پر حملے کا ارادہ بھی کر سکیں۔ بھارت اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کی بہترین فوج، پُرعزم عوامی قوت اور نیوکلیائی و میزائل صلاحیت کی حامل ہے اس کے مقدر میں شکست ہی لکھی ہے۔ پاکستان کی نیوکلیائی و میزائل ٹیکنالوجی صلاحیت کی فوقیت کو آج پوری دنیا نہ صرف تسلیم کرتی ہے بلکہ IEIA کے مطابق پاکستان کی ایٹمی صلاحیت دنیا کی طاقتور ترین اور محفوظ نیوکلیئر صلاحیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاقتور امریکہ و دیگر ممالک پاکستان سے محاذ آرائی کرنے کی بجائے نفسیاتی و سیاسی حربوں اور دبائو کا کھیل کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقیناً یہ ڈاکٹر اے کیو خان اور ان کی ٹیم کی کاوشوں اور کامیابی اور ہماری جری افواج کی پیشۂ ورانہ جرأت و عزم کا ثمر ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی اقتدار سے معزولی اور عدالتی قتل کا پس منظر بھی پاکستان کے جوہری پروگرام کو روکنا تھا۔ کسنجر کی دھمکی ریکارڈ پر ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان نے تمام پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود اس جہاد کو جاری رکھا اور اس جدوجہد میں ہمارے ریاستی و حکومتی قائدین کا مثبت کردار مشن کی تکمیل میں مہمیز رہا۔ 1998ء میں بھارت نے جب دھماکہ کیا تو ہماری عسکری قیادت اور ڈاکٹر اے کیو خان اور ان کی ٹیم نے اس کا فوری جواب دینے کا عزم کیا لیکن اس وقت کے وزیراعظم امریکی دبائو میں آکر ہچکچاہٹ میں تھے لیکن ڈاکٹر قدیر اور عسکری قیادت کے عزم سے چاغی میں جوہری دھماکہ کامیابی سے کیا اور بھارت کو جتا دیا کہ پاکستان کیخلاف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو بھیانک شکست و انجام کا سامنا کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر قدیر کے اس اقدام کو امریکہ، بھارت اور دیگر اقوام ہضم نہ کر سکے۔ 2004ء میں امریکہ کے الزام پر کہ پاکستان نے ایران،لیبیا اور شمالی کوریا کو یورینیم دیا ہے، مشرف حکومت نے ڈاکٹر قدیر کو بلی کا بکرا بنا دیا گیا اور امریکہ کے اس دبائو سے نکلنے کیلئے ڈاکٹر قدیر خان سے اس ایشو پر اعترافی بیان دلوا دیا گیا کہ وہ اس اقدام کے تنہا ذمہ دار ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اتنا اہم اقدام کوئی ایک فرد اُٹھا سکتا ہے، ہمارا نیوکلیئر پروگرام مکمل سیکیورٹی، رازداری کا حامل تھا جہاں پرندہ بھی پر نہ مار سکتا تھا۔ ایک بریگیڈیئر کے زیر نگرانی ہر طرح کے رسل و رسائل پر نظر رکھی جاتی تھی اور پوری ریسرچ و تکنیکی ٹیم کی نقل و حرکت ریکارڈ میں رہتی تھی اس صورتحال میں کسی دوسرے ملک یا ممالک سے اس طرح کی ڈیل کسی فرد واحد کیلئے ناممکن ہی تھی۔ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ امریکی دبائو پر ریاست کے تحفظ و بچائو کیلئے ایک فرد کو نشانہ بنایا گیا۔ خود ڈاکٹر قدیر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ریاست کو بچانے کیلئے ایک فرد کی قربانی کی کوئی حیثیت نہیں۔ ڈاکٹر قدیر نے ایک طویل عرصۂ کرب اور ذہنی اذیت میں گزارا لیکن قوم کے دلوں سے ان کی عزت و قدر و منزلت ختم نہ ہوئی۔ ان کی رحلت پر ان کے سفر آخرت کو ریاستی پروٹوکول اس امر کی حقیقت ہے کہ ریاست نے بھی ان پر لگائے گئے الزام کو غلط تسلیم کر لیا ہے اور پاکستان کیلئے ان کی خدمات و احسان کو ساری پاکستانی قوم مانتی ہے لیکن اس وقت بھی ڈان لیکس کے بدنام رپورٹر المیڈا اور الطاف حسین ابھی بھی اپنی پاکستان دشمن حرکات سے باز نہیں آرہے ہیں۔ کیا ارباب حل و عقد ایسے ملک دشمن افراد کو انجام تک نہیں پہنچا سکتے۔ ایسے کتوں کو تو موت کے انجام تک پہنچانا ہوگا۔
ڈاکٹر قدیر تو ہمارا وہ ہیرو ہے کہ جب تک پاکستان رہے گا اس کا نام و کردار زندہ رہے گا۔
٭٭٭