نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کے جہاں!!!

0
51

پاکستان کے عوام نے آٹھ فروری کے دن جو کارنامہ انجام دیا، اس کی بازگشت عالمی میڈیا اور طاقت کے ایوانوں میں ابھی تک اس طرح گونج رہی ہے جیسے بس یہ پچھلے چند گھنٹوں کا واقعہ ہو۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تلک، ایک تہلکہ مچا ہواہے۔ ہمارے پیارے ملک کو ایک ناکام ریاست اور ہماری جمہوریت کو بالکل بانجھ سمجھنے والے، آج انگشت بدنداں ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ اور کیوں ہوا؟ عالمی مبصرین، محققین اور ماہرین اس کو ایک ایسے کیس اسٹڈی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، کہ جس کے نتائج، ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر ایک گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ ایک طرف تو اس انتخابی مشق کے نتائج اتنے غیر متوقع ہیں کہ انہیں ہضم کرنا، اسٹیبلشمنٹ کیلئے انتہائی مشکل ہو گیا ہے لیکن دوسری طرف ان نتائج کو تبدیل کرنے کی بھونڈی کوشش کرنے والوں نے حقیقی آزادی کی جدوجہد کو مزید تندو تیز کردیا ہے۔ کراچی، پنجاب اور کے پی کے بعد اب بلوچستان اور اندرونِ سندھ بھی اس جدوجہد میں پوری طرح شامل ہو چکا ہے۔ پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اس تحریک سے کافی حد تک متاثر نظر آرہا ہے۔ بیوروکریسی کے اعلی درجات میں پڑتی ہوئی دراڑیں اب نظر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا تو پہلی ہی مملکتِ خداداد کی کمزوریاں اجاگر کرنے کیلئے بیتاب رہتا ہے لیکن اس وقت ان کی یہ بدنیتی، حقیقی آزادی کی تحریک کو براہِ راست فائدہ پہنچا رہی ہے۔ سپر پاور بھی حیران و پریشان ہے کہ اس کا سائفر کے ذریعے دیا ہوا حکم، انتہائی شرمندگی کا باعث بن چکا ہے۔ نہ جائے ماندن ۔ نہ پائے رفتن، شاید اسی کیفیت کا نام ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ خان کے قید ہونے کے باوجود، پاکستانی قوم ایبسلیوٹ ناٹ کے نعرے پر ڈٹ گئی ہے۔ سیاسی پنڈتوں نے ایسا نتیجہ تو کسی ماڈل میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ کراچی سے حافظ نعیم الرحمان صاحب نے بغیر کسی سیاسی اتحاد کے، پی ٹی آئی کے لاوارث کارکنان کو سنبھالا دیا ہے۔ اندرونِ سندھ سے حر مجاہدین کے روحانی پیشوا، پیر پگارہ صاحب نے اپنی ساری روایات کے برخلاف، ایک تاریخی دھرنے کو بذاتِ خود لیڈ کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ ان کا مقف بھی خان صاحب کے حقیقی آزادی کے بیانیہ سے زیادہ مختلف نہیں۔ بلوچستان میں حیرت انگیز طور پر قوم پرست، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے نوجوان علیحدہ علیحدہ رہ کر بھی ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنے ہوئے ہیں۔اس ساری بیچینی کے ماحول میں ملٹری براہِ راست مارشل لا تو لگا سکتی ہے لیکن عدمِ تشدد کے اصول پر چلنے والی اس تحریکِ حقیقی آزادی پر قابو پانا انتہائی مشکل لگ رہا ہے۔ پاکستانی قوم پچھلے پونے دو سال کے عرصے میں، فسطائیت کے کئی بڑے جھٹکے برداشت کر چکی ہے۔ اس وقت بھی دس پندرہ ہزار سیاسی قیدی مختلف جیلوں میں ہر طرح کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں۔ حالیہ انتخابی مشق کے مثبت نتائج سے کارکنان کے مورال اور قیادت پر اعتماد میں خاطرخواہ اضافہ ہو چکا ہے۔ کے پی میں خان کی فقیدالمثال مقبولیت کا اثر پورے ملک پر پڑ رہا ہے۔ سیاسی عدمِ استحکام کی موجودگی میں معیشت کے اعشاریئیے درست کرنا اور رکھنا تقریبا ناممکن ہے۔ یہ ساری صورتحال، اس حتمی نتیجے کے طرف اشارہ کر رہی ہے جس کو برداشت کرنے کیلئے ہماری اسٹیبلشمنٹ کو اب ذہنی طور پر تیار ہوجانا چاہئے۔اس سارے سیاسی تصادم کی ایک انتہائی دلچسپ حقیقت لفظ مینڈیٹ کا پاکستان کی تمام زبانوں میں بے دریغ استعمال ہے۔ اردو، پنجابی، پشتو، سرائیکی، سندھی، بلوچی اور براہوی سے لے کر گوجری اور پوٹھواری تک، ہر گاں اور شہر کے مرد و زن کو بس ایک ہی شکایت ہے کہ ان کا مینڈیٹ چوری کر لیا گیا ہے۔ میں نے کچھ لوگوں سے دریافت کیا کہ اس لفظ کا استعمال آپ نے کب سے شروع کیا ہے؟ تقریبا ہر ایک کا جواب یہی ہے کہ آٹھ فروری کے بعد سے۔ اردو لغت میں مینڈیٹ کا مطلب فرمان لکھا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں عوام کی حاکمیت کو تو کبھی بھی زیادہ اہمیت نہیں ملی۔ شاید اسی لیئے فرمان سے مراد شاہی فرمان یا وقت کے حکمران کا حکم سمجھا جاتا ہے۔ عوام بیچاری کا حکمرانی سے کیا تعلق؟ بہرحال، آجکل تو ہر کوئی اپنے مینڈیٹ کی جنگ لڑنے کیلئے تیار لگ رہا ہے چاہے اسے اس کے معنی کا پتہ ہو یا نہ ہو۔فیض کے ان اشعار پر بات ختم کرتا ہوں کہ نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کے جہاںچلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلیجو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلینظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here