”سیاسی تماشا”

0
74

”سیاسی تماشا”

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی موجودہ الیکشن کے بعد حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہیں ، اکثریت نہ ملنے پر مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے وزیراعظم بننے کی بجائے چھوٹے بھائی اور سابق وزیراعظم شہباز شریف کو قربانی کو بکرا بناتے ہوئے وزارت اعظمیٰ کے لیے پیش کر دیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کی جانب سے آصف زرداری کو صدرات کے منصب پر بٹھانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ،دونوں جماعتوں کی جانب سے میٹنگز کا سلسلہ جاری ہے تاہم ابھی تک کسی حتمی اعلامیے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، دونوں جماعتوں کی پاکستانی سیاست میں محاذ آرائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ،الیکشن سے قبل دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی بڑی دشمن بن جاتی ہیں جبکہ الیکشن کے بعد آپس میں بغل گیر ہو جاتی ہیں ، پاکستانی عوام عرصہ دراز سے یہ دونوں سیاسی جماعتوں کا تماشا دیکھ رہے ہیں جس میں مستقبل قریب کے دوران کسی بہتری کی کوئی امید نہیں ہے ، دونوں جماعتوں کی جانب سے الیکشن سے قبل اور بعد میں بھی غریب عوام کی بہتری کے لیے کوئی پلان نہیں دیا گیا بلکہ ان کے وزیر اور مشیر عوام کو مزید مہنگائی کی خبروں سے ڈرانے میں مصروف ہیں ، پیپلزپارٹی کے انتخابی منشور کی بات کی جائے تو یہ صفحات پر مشتمل ہے ، 2018 کے انتخابات میں اس کا منشور 68 صفحات پر مشتمل تھا اور 2013 کے انتخابات میں یہ 42 صفحات پر مشتمل تھا۔ اس مرتبہ ایسی بے نیازی کیوں؟ پارٹی کے پاس سوچ بچار کر کے منشور تیار کرنے والے ماہرین نہیں رہے یا ‘واک اوور’ کے انتخابی منظر نامے نے پارٹی قیادت کو اس تکلف سے بے نیاز کر دیا ہے؟گویا پیپلز پارٹی نے منشور کے نام پر محض ایک قانونی تقاضا پورا کیا ہے جب کہ مسلم لیگ ن ابھی تک یہ تقاضا بھی پورا نہیں کر سکی۔دونوں جماعتیں زبانِ حال سے اس بات کا اعتراف کر رہی ہیں کہ انتخابات میں کامیابی کے لیے منشور تیار کرنا اور اسے عوام کے سامنے رکھ کر عوام کو قائل کرنا ضروری نہیں ہے۔ کامیابی کے لیے امورِ دیگر کا کشتہ مرجان کافی ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس زاد راہ کے ساتھ ہم سلطانی جمہور کے نئے زمانے میں داخل ہو رہے ہیں؟عمران خان کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ ان کا سارا بیانیہ بھی ان کی اپنی کسی خوبی کی بجائے سیاسی مخالفین کی ہجو پر استوار تھا۔ ان کے سیاسی حریف بھی اسی حربے سے مسلح ہیں۔قومی جماعتوں کی ہنرکاری بتاتی ہے کہ ان کے خیال میں ایک نیم خواندہ سماج میں سیاست بہت آسان ہوتی ہے۔ یہاں کوئی منشور پوچھتا ہے نہ یہاں کسی سے اس کی حکمت عملی کے بارے میں کوئی سوال ہوتا ہے۔ یہاں نفرت اور عقیدت کی بنیاد پر صف بندی ہوتی ہے اور آسودہ حال اشرافیہ محروم طبقات کی محرومیوں کا استحصال کرتی ہے۔غربت کے مارے ووٹروں کے سامنے یہاں مریم نواز صاحبہ اعلان کرتی ہیں کہ 200 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کریں گے تو بلاول صاحب آگے بڑھ کر فرماتے ہیں کہ وہ 300 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کریں گے۔ بلاول کا اعلان سنتے ہیں تو حمزہ شہباز مفت کے یونٹوں میں 100 یونٹ کا اضافہ کر دیتے ہیں کہ عزیز ہم وطنو ہم بھی اب 300 یونٹ بجلی مفت فراہم کریں گے۔ تالیوں کا شور اتنا ہوتا ہے کہ کسی رہنما سے یہ نہیں پوچھا جا سکتا کہ گرامی قدر، ذرا یہ تو بتاتے جائیے کہ یہ مفت کی بجلی کے لیے دو ہزار ارب کی سبسڈی آپ کہاں سے دیں گے؟ معاشرہ آگے بڑھ گیا ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پیچھے رہ گئی ہیں۔ یہ سفر اسی طرح جاری رہا تو یہ سیاسی قیادت اپنے ہی سماج میں غیر متعلق ہو جائے گی۔دونووں جماعتوں کو سمجھنا ہو گا کہ پرانی نسل کی وابستگیاں برفاب ہو چکیں۔ سیاست میں اب نئی نسل آ چکی ہے۔ اس نئی نسل کو متاثر کرنے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس کیا ہے؟جنگ کی طرح سیاست بھی ایک ہنڈولا ہے، یہ اوپر بھی جاتا ہے اور نیچے بھی آتا ہے۔ اس ہنڈولے کے ہمراہ سوال اب صرف یہ نہیں کہ الیکشن میں کیا ہو گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب عمران خان جیل سے باہر آئیں گے تب کیا ہو گا؟مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اگر ‘واک اوور’ کے جشنِ طرب سے نکل سکیں تو یہ سوال ان کی توجہ کا طالب ہے۔حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے درمیان بھی مذاکرات جاری ہیں۔ گزشتہ روز دونوں جماعتوں کے وفود کے درمیان ملاقات بھی ہوئی۔ایم کیو ایم نے حکومت میں شامل ہونے کے لیے ن لیگ سے تین نکاتی آئینی ترمیم پر حمایت کا مطالبہ کیا ہے جب کہ اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی کو آئینی تحفظ دینے کا بھی مطالبہ شامل ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ دور حاضر کے دوران عوام کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور دیگر اتحادی جماعتیں اپنے سیاسی اور حکومتی رویے میں تبدیلی لاتی ہیں یا پھر پرانی سیاسی ڈگر پر ہی چلتی رہیں گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here