پرتگال میں کھوپڑیوں کی عبادت گاہ !!!

0
97
کامل احمر

ہمارے ایک کرم فرمانے لکھا آپ پرتگال ہو کر آئے وہاں کا کوئی ذکر تو یاد آیا کہ یہ زیادتی ہوگی اگر پرتگال کا ذکر نہ ہو بتاتے چلیں کہ اسپین سے مغرب کی جانب جڑا ہوا لمبائی میں ایک کروڑ اور34ہزار باشندوں کا ملک ہے جو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے89واں ملک ہے اور ایریا کے لحاظ سے109واں خوبصورت ترین ملک ہے۔ لڑکین میں پڑھا تھا اس کو ڈی گاما مشہور پر تگیز سیاح جہاز رانی کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کے نیچے سمندری علاقہ سے وہ انڈیا کی بندرگاہ کالی کٹ پہنچا تھا یہ1497ء کی بات ہے اور یورپین ممالک کے لئے انڈیا دریافت کرنے کا وسیلہ بنا تھا۔ جہاز رانی کے ذریعے وہ تین ماہ کی مسافت کے بعد2ہزار میل کا سفر کھلے سمندر میں طے کرنے اور اپنے ساتھ گئے عملہ کے کئی لوگوں کو ضائع کرنے کے بعد وہ جب سائوتھ افریقہ پہنچا تو اس کا عالیشاں استقبال کیا گیا، اسے انعام اکرام سے نوازا گیا اور بعد میں اس کی یاد میں ا سکا مجسمہ بھی شہر کے بیچ میں تعینات کیا گیا ہےCAPE OF GOOD HOPEکی جگہ پر۔ وہاں سے نکلا تو انڈیا میں کالی کٹ کی بندرگاہ پر پڑائو ڈال دیا۔ کیرالہ کے لوگوں نے بھی اسے خوش آمدید کہا کہ وہاں اس سے پہلے کوئی گوری چمڑی والا شخص نہیں پہنچا تھا۔ موصوف کو سیاحت اور دریافت کا جنون تھا اس نے انڈیا کے دو چکر لگائے اور24سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انکا ایک بڑا مجسمہ پرتگال میں مینیز کی جگہ ہے۔ ہم بھی دیکھنے گئے موصوف انڈیا میں انتقال کر گئے تھے لیکن بعد میں جب گوا پرتگیز کے قبضے میں تھا۔ انکی بقیہ باڈی کو پرتگال لایا گیا کہ وہ پرتگال کے لئے ایک مشہور ہستی تھی۔ ہمارے ٹور گائیڈ نے پرتگال میں دوسری صبح اٹھتے ہی ناشتہ کے بعد اعلان کیا لزبن(جہاں ہم ٹہرے تھے) کی سیر کے لئے تیار ہوجائو۔ اور ہوٹل سے کوئی10منٹ کی ڈرائیور کے بعد ایک سڑک پر چھوڑ دیا اور کہا یہ ایک یادگار پارک ہے۔ ہمیں شبہ ہوا کہ وہ پارک ہے البتہ یادگار ٹاور کھڑا تھا اور نیچے بغیر درختوں اور پھولوں کے پارک کا نام دیا گیا تھا جو ہسپانوی زبان میں تھا خود پڑھ لیں۔ PARQUF FLORESTALانگریزی میں وسیع گھنے جنگلوں کا پارک۔ ہم نے سیاحت کرنے کے بعد حاصل مطلب یہ نکلا کہ دنیا کے ہر ملک نے مال بنانے کے لئے یا شہروں کی خوبصورتی بڑھانے کے لئے میوزیم، پارک سڑکیں اور ہائی ویز کے علاوہ ہر بڑے شہر میں زمین دوز ٹرینوں کے نظام کا جال بچھایا ہوا ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ با آسانی پہنچا جاسکے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان 22کروڑ آبادی کا واحد ملک ہے جہاں سیاحت کو تباہ کردیا ہے موہن جودا ڑو، ٹیکسیلا، ٹھٹہ، ماتلی جس پر بھٹو کے دشمنوں کا قبضہ ہے عرصہ سے جو پیسہ ان ترقیاتی کاموں اور سیاحت پر خرچ ہوتا ہو حکمران بغیر ڈکار لئے کھا گئے۔ ہر ملک میں پہاڑ ہیں اور انکے دامن میں جھیلیں، فوارے اُبلتے ہیں۔ چوراہوں پر خوبصورتی کے لئے ہر ملک کے شہروں میں فوارے شہر کی خوبصورتی ہیں اضافہ کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ کراچی کو یہ سب چیزیں نصیب نہیں۔ اور انگریز اور ہندو جو اپنے پیچھے چھوڑ کر گئے اس کو یا تو اجاڑ دیا یا غائب کردیا۔ لزبن کی میٹرو میں سفر کریں تو بے آواز رفتار ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔ لکھتے چلیں کہ ہسپانوی میں لزبن کوLIS BOAلکھتے اور پڑھتے ہیں۔ پرتگال کا مغربی حصہ ساحل سمندر بحراوقیانوس کے ساحلوں پر آباد ہے جہاں جگہ جگہ یاد غاریں ملیں گی۔ اس پارک کے بعد ہمیں دریا کے ساحل پر لے جایا گیا جہاں قرون وسطیٰ کے زمانے کا ٹاور ہے اس جگہ کا نام بیلم ٹاور ہے جو پانی کے اندر سے نکلتا ہے یہ ایک قلعہ نما عمارت ہے اور تاگس دریا کے ساحل پر سولہویں سنچری کی یادگار ہے۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر ہی اسی دریا کے کنارے ایک جہاز نما اونچی عمارت ہے جس پر بہت سے لوگوں کے ساتھ جب کی ملکہ اور بادشاہ کو دکھایا گیا ہے کشتی کے بادبان بھی دکھائے گئے ہیں۔ اور وہیں جرمن کا بھیجا تحفہ زمین پر دنیا کا نقشہ ٹائلوں کے جوڑ سے بنا دیکھ سکتے ہیں۔ ایک جگہ پر تین یادگاریں پیسے وصول یہ ایک کھلے پارک کی شکل کی جگہ ہے جہاں دوسرے ممالک سے آئے پناہ گزیں بھی چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے نظر آئینگے۔
لوگوں کے ہشاش بشاش چہرے دیکھ کر جو اپنے بچوں کے ساتھ چھٹی کا دن منا رہے تھے احساس ہوا کہ فیملی لائف بہتر ہے امریکہ سے کہ ہیلتھ کیر سسٹم حکومت کے تحت ہے اور انکے سروں پر تلوار کی طرح نہیں ہے۔ سڑکوں کا خوبصورت نظام کہ ٹریفک کتنا بھی ہو رکتا نہیں رائونڈ ابائوٹ کی وجہ سے یا سگنل کی کارکدگی پر انتظامیہ کی نظریں ہیں۔ جہاں بھی گئے وہاں پاکستانی نظر نہیں آئے سنا تھا پرتگال میں بہت ہیں۔
اب ہمارا رخت سفر دوسرے شہر ایوورا کی طرف تھا جو ایک خوبصورت اور کم آبادی کا شہر ہے۔ اور پہاڑی علاقہ ہے جہاں پتلی پتلی گلیوں میں بس کی مانند لال اور پیلی قدیم ٹرامیں دوڑتی نظر آئینگی۔ ایک میوزیم میں جانے کا اتفاق ہوا اور گائیڈ نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرکے کہا اندر کمرے کی دیواروں پر انسانوں کی کھوپڑیاں لگی ہیں ٹائیلوں کی جگہ دیکھ کر افسوس ہوا پوچھا کیا یہاں منگول آئے تھے گائیڈ مسکرایا بولا”اسے ہڈیو کا گرجہ گھر بھی کہتے ہیں پھر ہنس کر بھولا” یہ ڈرانے کے لئے ہے کہ انسان بن کر رہو ورنہ یہ حشر ہوگا”ہم نے اس کی سچائی پر یقین کیا لیکن یقین نہیں آیا کہ یہ کام پاکستان میں اب تک کیوں نہیں ہوا جس کی ہر شہر میں ضرورت ہے ۔ شاید زرداری کے جانے کے بعد کوئی آنے والا کر جائے، انتظار کیجئے۔
اب ہم کچھ کولمبس کے لئے بھی بتاتے چلیں جو اطالوی نژاد تھے جینوا اٹلی میں پیدا ہوئے پیشہ سے جہاز رانی کے ماہر تھے اور شوق تھا کھوج لگانے کا دنیا کی اور موصوف کا نام دنیا بھر میں رہے گا کہ جس ملک(امریکہ) میں ہم بیٹھے ہیں انکی دریافت تھی شاید انہیں معلوم تھا ایک دن ہم بھی اپنا ملک چھوڑ کر بہتر مستقبل کی تلاش میں دوسرے لوگوں کی طرح نقل مکانی کرینگے پہلے وہ پرتگال کے بادشاہ کے کے پاس پہنچے اور کہا میں انڈیا دریافت کرنا چاہتا ہوں وہاں بہت مال ہے ممکن ہے انہوں نے محمود غزنوی کے متعلق پڑھا ہو کہ17حملوں کے بعد وہ کامیاب ہوا تھا یہ بات1009اور1024کے درمیان کی ہے اس نے ہی سوفاتھ کا مندر دریافت کیا تھا ہم نے تاریخ میں پڑھا تھا اور کولمبس اس کے 425سال بعد یعنی1480کے لگ بھگ پہنچا تھا اور انڈیا کی بجائے پہلے جزائر غرب الہند میں بہا ماس پہنچا وہ جگہ شاید اسے بھائی نہیں لہذا عملہ کو حکم دیا لنگر اٹھائو اور آگے چلو۔ اسے قسمت کہیں کہ موصوف راستہ بھولے اور کیوبا پہنچے انکے ساتھ دوسرے جہاز میں جوان پونک ڈی لیوں راستہ بھٹک کر فلاریڈا پہنچا موصوف نے واپس اسپین جا کر خبر دی کہ امریکہ دریافت کیا ہے یہ1492کی بات ہے۔ کولمبس نے مالی مدد اور دوسری سہولتوں کے لئے پرتگال کے بادشاہ کو رجوع کیا لیکن مایوسی ہوئی شائد اس لئے کہ کولمبس پرتگالی نہیں تھا بعد میں شائد پچھتایا ہوگا اور اس کے چند سال بعد اس نے واسکوڈی گاما کی مدد کی جو ہوا اچھا ہوا۔کولمبس ارادے کا پکا تھا اس نے خچر خریدا اور اس پر سوار اسپین کی ملکہ کے دربار پہنچا لیکن ملکہ نے بھی انکار کیا تو کولمبس نے فرانس کا رخ کیا ملکہ کو جب معلوم ہوا اس کے مشیروں نے بتایا اگر وہ کامیاب ہوا تو ہماری عزت خاک میں ملے گی۔ ملکہ نے فوراً حکم دیا کولمبس کو پکڑ کر لایا جائے۔ اور بعد کی تاریخ یہ ہے کہ ملک نے کولمبس کو دو جہاز فراہم کئے تیسرا جہاز کولمبس نے خود اپنے اور اسکے ساتھ دوسرے مہم جو افراد کے پیسوں سے خریدا اور3اگست1492وہ اسپین کی بندرگاہ پالوس سے اپنے عملے کے ساتھ روانہ ہوا۔1500لوگوں کے ساتھ کچھ عورتوں کو بھی لیا بعد کی کہانی سب کو معلوم ہے کولمبس کا انتقال20مئی1504کو اسپین میں57سال کی عمر میں ہوگیا۔ اور اپنی یاد میں وہ امریکہ اور اسپین کو اپنے مجسمے دے گیا جس تک امریکہ ہے کولمبس کو بھلایا نہیں جاسکتا انکے نام کا دن بھی منایا جاتا ہے اس محسن کی یاد میں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here