بی جے پی کے دہشتگردوں نے لشکروں کے ساتھ حملہ کیا، یہ حملہ رات اڑھائی بجے کے قریب کیا گیا تھا، جہاں مسجد شہید کی گئی، وہاں باہر ایک لاش بھی پڑی ملی
نئی دہلی (پاکستان نیوز) بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 38 ہو گئی جبکہ 250 سے زائد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ انتہا پسند غنڈوں نے 11 روز پہلے سر پر سہرا سجانے والے مسلمان لڑکے کو فائرنگ اور تلوار کے وار سے قتل کر ڈالا، مصطفی آباد میں ایک اور مسجد شہید کر دی گئی جبکہ دوسری مسجد پر پٹرول بم پھینکے گئے ، شہریوں پر تیزاب پھینکا جارہا ہے۔مقامی شہری نے بتایا ہے کہ بی جے پی کے دہشتگردوں نے لشکروں کے ساتھ حملہ کیا، یہ حملہ رات اڑھائی بجے کے قریب کیا گیا تھا، جہاں مسجد شہید کی گئی، وہاں باہر ایک لاش بھی پڑی ملی جسے پولیس اہلکاروں نے اٹھانے نہیں دیا، مسجد کے ساتھ ایک گھر تھا جسے انتہا پسندوں نے جلا ڈالا جہاں پر ایک فیملی رکھتی تھی، گھر کے ساتھ ساتھ انہوں نے دکانوں کو بھی جلا دیا۔نئی دہلی ہائیکورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر کو فسادات پر پولیس کی سخت باز پرس کرنا اور بی جے پی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر کا حکم دینا مہنگا پڑگیا،مرکز نے رات گئے جسٹس ایس مرلی دھر کا تبادلہ پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ کر ڈالا۔بھارتی اپوزیشن کانگریس نے جسٹس مرلی دھر کے تبادلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ بی جے پی دباؤ کی سیاست کر رہی ہے۔کانگریسی وفد نے سونیا گاندھی کی قیادت میں صدر رام ناتھ کوند سے ملاقات کی اور مذمتی قرارداد پیش کی۔ کانگریسی وفد نے صدر سے وزیر داخلہ امیت شاہ کو فوری ہٹانے کا مطالبہ بھی کردیا۔امریکہ ، فرانس اور روس نے دہلی میں اپنے شہریوں کے لئے سکیورٹی الرٹ جاری کیاہے۔ امریکی سفارت خانے نے اپنی سکیورٹی ایڈوائزری میں بھارت میں موجود امریکی شہریوں کو ہدایت کی کہ وہ شمال مشرقی دہلی میں جانے سے گریز کریں۔ترجمان یورپی یونین نے نئی دہلی میں تشدد روکنے کامطالبہ کردیا۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام معمول کی بات بن چکا ، قتل عام میں ہندو انتہا پسند ملوث ہیں، مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ بھارت دنیا میں امن کی حمایت کی بات کرتا ہے جبکہ اْن کے ملک میں ایسا ہورہا ہے ،ہم بھارتی حکومت پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ٹھیک راستہ نہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے بھارت میں تشدد کی آگ بھڑکانے کا ذمہ دار سیاسی قائدین کو ٹھہرایا اور ان کو فوری طور پر کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بھی کیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ بات حیران کن ہے کہ دسمبر 2019 ء سے اب تک ایک بھی منتخب نمائندے کے خلاف نفرت اور تشدد کی حمایت کرنے کے الزام میں قانونی کارروائی نہیں کی گئی، بھارتی وزیر اعظم نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی وسطی ایشیائی امور ایلس ویلز نے انتہائی محتاط انداز میں بھارت پر زور دیا کہ جو لوگ مذہبی فسادات کے پیچھے ہیں وہ خود کو تشدد سے دور رکھیں۔اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا نئی دہلی میں مقتولین اور زخمیوں کے ساتھ ہماری ہمدردیاں ہیں۔انہوں نے کہا ہم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے امن کی بحالی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ایلس ویلز نے زور دیا کہ تمام فریقین امن برقرار رکھیں اور تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کریں۔امریکی ڈیموکریٹ رہنمابرنی سینڈرز نے بھی بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں پراظہارتشویش کیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پرٹرمپ کاردعمل قیادت کی ناکامی ہے۔امریکی سینیٹرمارک وارنر نے کہا کہ نئی دہلی میں حالیہ تشدد کے واقعات اطمینان بخش نہیں، بھارتی حکام اقلیتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں رکوائیں۔ برطانوی مسلمان رکن پارلیمنٹ زاراسلطانہ نے کہا کہ دہلی میں مسلمانوں کو ویسے ہی مارا جارہا ہے جیسے گجرات میں 2002 ، ممبئی میں 1992 اور دہلی میں 1984 میں مارا گیا۔انہوں نے اپنے ٹویٹ میں مزید کہا ہے کہ ایک چیز واضح ہے کہ یہ جھڑپیں نہیں بلکہ مودی اور بی جے پی کی جانب سے تشدد ہے۔